عطائے ساقی ِفطرت ہے کیا حکیمانہ

ہر اک کو بخششِ مے ہے بقدرِ پیمانہ اسی خمار کی مے ہے، وہی ہے پیمانہ کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ امنگ و آرزو و شوق و حسرت و ارماں نہ ہوں جو دل میں تو دل کیا ہے ایک ویرانہ سکوں ہے دل کو مرے سجدہ ہائے باطل پر گراں ہے […]

عطرِ غمِ محبت کیوں خاک میں ملائیں

آنکھوں میں جو ہیں آنسو کیوں ضبط کر نہ جائیں دنیا کی ہر روش کی تقلید کیا ضروری ایماں فروزِ دل ہو نغمہ وہی سنائیں ساری علامتیں ہیں شاید کہ شہرِ دل کی ہر سمت ہے اداسی منظر ہے سائیں سائیں خورشید و ماہ و انجم روشن گرِ جہاں ہیں وہ روشنی بھی دیکھو دل […]

عمر ہائے تمام ہوتی ہے

آج قیدِ دوام ہوتی ہے رشکِ توحید وہ بسا دل میں کب درایں خانہ شام ہوتی ہے آدمی کو گرا دے پستی میں جب زباں بے لگام ہوتی ہے اُف مری حرصِ بادہ آشامی خواہشِ دُرد و جام ہوتی ہے ان کی محفل میں ایک میں ہی نہیں اور دنیا تمام ہوتی ہے دور منزل […]

قربتِ یزداں کس کو ملی ہے اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ

کون ہوا ہے بزمِ جہاں میں بندۂ ذیشاں تم سے زیادہ امن و اماں کے ہم ہیں پیامی، صلح میں کوشاں تم سے زیادہ جب ہوں مگر باطل کے مقابل، حشر بداماں تم سے زیادہ اپنے صنم کے قرب و رضا کا رہتا ہے خواہاں تم سے زیادہ شیخِ مکرم! ہے یہ برہمن صاحبِ ایماں […]

لا الٰہ دل نشیں دو حرفِ سادہ کیجیے

کہہ کے الا اللہ پھر سب کا اعادہ کیجیے پیشِ مہماں کس طرح سے آبِ سادہ کیجیے شیخ محفل میں ہیں آئے پیش بادہ کیجیے ہیں صریحاً ازدیادِ رنج و غم کا یہ سبب آپ سے کس نے کہا، ارماں زیادہ کیجیے بادۂ وحدت ہے صاحب سَمِّ قاتل تو نہیں پی نہیں اب تک تو […]

مرے شعلہ بار نالے، مری شعلہ بار آہیں

نہ جلا کے راکھ کر دیں کہیں تیری خواب گاہیں ترے ہر ستم کو سہہ کر ترا ہر ستم سراہیں یہ نہ ہم سے ہو سکے گا تری دوستی نباہیں سرِ شام ہی سے نالے، سرِ شام ہی سے آہیں شبِ غم سے کس طرح ہم دمِ صبح تک نباہیں دلِ بد نصیب ہی کو […]

مسلماں دیکھ کر اب دل کی حیرانی نہیں جاتی

کُجا سیرت، کہ صورت تک بھی پہچانی نہیں جاتی حدیثِ غم سنانے سے پریشانی نہیں جاتی مگر کچھ لوگ ہیں جن کی یہ نادانی نہیں جاتی جنابِ شیخ بول اٹھیں، بہ ہر مبحث، بہ ہر موقع کہ ان کی خوئے پندارِ ہمہ دانی نہیں جاتی سنا سیلِ تمنا میں ہزاروں شہرِ دل ڈوبے مگر پھر […]

میں گرچہ اسیرِ افسونِ ظلماتِ شبِ دیجور نہیں

پھر بات یہ کیا ہے اے ہمدم! کیوں مطلعِ دل پر نور نہیں تحصیلِ جناں مطلوب نہیں، مقصودِ عبادت حور نہیں جز تیری رضا، جز تیری خوشی، کچھ اور مجھے منظور نہیں آزادی انساں کا مبحث دو رُخ سے سمجھنا ہے یعنی مختار ہے اور مختار نہیں، مجبور ہے اور مجبور نہیں اک بار ذرا […]

نکالو بزم سے تم حاشیہ نشینوں کو

تو ہم بھی جمع کریں پھر تماشہ بینوں کو سمجھ حقیر نہ تو بوریہ نشینوں کو اتار لیتے ہیں یہ عرش کے مکینوں کو کسی طرح بھی وہ اپنا نہ بن سکا اب تک کہ آزما تو لیا ہم نے سو قرینوں کو شریکِ سازشِ دریا جو ناخدا بھی رہے تو موج اٹھ کے ڈبوتی […]

واقفِ آدابِ محفل بس ہمیں مانے گئے

ان کی محفل میں ہمیں شائستہ گردانے گئے مٹتے مٹتے مٹ گئے راہِ وفا میں لوگ جو بعد والوں میں نشانِ راہ وہ مانے گئے کچھ نقوشِ عہدِ رفتہ خیر سے اب بھی تو ہیں لاکھ بگڑی میری صورت پھر بھی پہچانے گئے دودھ کے مجنوں تو مل جائیں گے اب بھی ہر جگہ خون […]