اسمِ عظیمِ سیّدِ امجد عطا ہوا
آدم کے دِل کو نسخۂ احمد عطا ہوا دنیا کے پہلے شخص کو ابجد عطا ہوا سازِ ازل کو نغمۂ سرمد عطا ہوا پرکارِ جاں کو نقطۂ محور دیا گیا آئینۂ خیال کو جوہر دیا گیا
معلیٰ
آدم کے دِل کو نسخۂ احمد عطا ہوا دنیا کے پہلے شخص کو ابجد عطا ہوا سازِ ازل کو نغمۂ سرمد عطا ہوا پرکارِ جاں کو نقطۂ محور دیا گیا آئینۂ خیال کو جوہر دیا گیا
اے خالقِ مکین و مکاں ربِّ ذوالجلال ہے نام جس کا عرش پہ موضوعِ ہر مقال تنزیل مجھ پہ بھی ہو وہی اسمِ ذِی جمال یہ نام شاخِ ذہن پہ مانندِ گُل، رہے آدم شریکِ امّتِ ختم الرُّسل رہے
مانا نہ قدسیوں کے امامِ رذیل نے سَرکش بنا دیا اُسے ذہنِ علیل نے مغرور کر دیا اُسے علمِ دلیل نے تب ہر نگاہ میں اُسے بَد کر دیا گیا شامِ ابد تلک اُسے رَد کر دیا گیا