پہنچے نہ جس کی وسعتوں کو پرتوِ خیال
پہنچے نہ جس کی وسعتوں کو پر توِ خیال حیراں ہے جس کے سامنے آئینۂ مثال جس اسمِ دل پذیر میں ہے حا و میم و دال تعریف جس کی کرتا ہے خود ربِّ ذوالجلال دنیائے شش جہت کے وجود و ظہور کا ممدوح انس و جنّ و مَلک کا طیور
معلیٰ
پہنچے نہ جس کی وسعتوں کو پر توِ خیال حیراں ہے جس کے سامنے آئینۂ مثال جس اسمِ دل پذیر میں ہے حا و میم و دال تعریف جس کی کرتا ہے خود ربِّ ذوالجلال دنیائے شش جہت کے وجود و ظہور کا ممدوح انس و جنّ و مَلک کا طیور
وہ حاصلِ کتاب ہے اِس پر کتاب ختم سارے صحیفے ، سارے سماوی نصاب ختم اس پر ہوئے تمام نبوّت کے باب ختم صبحِ ازل سے اِس کی جلالَت ابد تلک قائم ہے اِس کا عہدِ رسالت ابد تلک
وہ جدِّ نامدار حسنؑ کا حسینؑ کا غازی ہے وہ اُحد کا تبوک و حنین کا ٹھنڈک جگر کی ، دِل کا سکوں ، نور عین کا تنہا کھڑا ہے فوج سے پنجہ نبرد ہے بے باک ہے ، جری ہے، بہادر ہے مَرد ہے
وہ دل پسند گیت سَحر دم طیور کا وہ مرکزی خیال کتابِ زبور کا وہ نغمۂ نجات ہے یوم نشور کا دھڑکن نہیں یہ سینے میں انساں کی بھول ہے یہ معبدِ وجود میں ذکرِ رسول ہے
وجدان و فکر و ذہن کی بس عید ہے وہی ہے لائقِ شنید وہی دید ہے وہی عالم میں صرف قابلِ تقلید ہے وہی دنیائے شش جہت میں نوائے سروش ہے وہ جنّتِ نگاہ ، وہ فردوسِ گوش ہے
جس کا خیال عین سعادت ہے وہ رسول بس دیکھ لینا جس کو تلاوت ہے وہ رسول جس کا بیاں لبوں کی عبادت ہے وہ رسول جس کا ہر ایک سانس ہے دم جبرائیل کا جس کا کہا ، کہا ہے خدائے جمیل کا
جس کا جمال زیبِ رسالت ہے وہ رسول جس کی نظر تجلّیٔ وحدت ہے وہ رسول جس کی جبین صبح کی ساعت ہے وہ رسول ظلماتِ دَہر میں وہ اجالوں کا باب ہے وہ ربِّ روشنی کا حَسین انتخاب ہے
ہے فخر جس پہ آیۂ رحمت کو وہ رسول جس نے دئیے معانی محبت کو وہ رسول محذوف جس نے کر دیا نفرت کو وہ رسول قوسِ قزح ہے امن کی دارین کے لئے وہ رحمتوں کا ابر ہے ثقلین کے لئے
ہے منفرد جو وصفِ شجاعت میں وہ رسول جو مہرباں ہے شانِ جلالت میں وہ رسول لرزاں ہے کفر جسکی عدالت میں وہ رسول نظریں اُٹھیں تو دشمنِ عیّار گر پڑے کافر کے سخت ہاتھ سے تلوار گر پڑے
عادات جس کی سورۂ رحمن وہ رسول ہر بات جس کی آیۂ قرآن وہ رسول جو ہے خدا کا آخری فرمان وہ رسول پیغمبری کی پھر کوئی صورت نہیں رہی بعد اس کے پھر کسی کی ضرورت نہیں رہی