چرچا ہے کائنات میں خوئے شریف کا
قرآں ہے نعت خواں اُسی خلقِ لطیف کا ہمدرد وہ کہ بوجھ اُٹھائے ضعیف کا خود اپنے ہاتھ سے کرے بستر حریف کا مولائے کُل ، انیسِ تیامیٰ کہیں جسے بیواؤں کے دُکھوں کا مداوا کہیں جسے
معلیٰ
قرآں ہے نعت خواں اُسی خلقِ لطیف کا ہمدرد وہ کہ بوجھ اُٹھائے ضعیف کا خود اپنے ہاتھ سے کرے بستر حریف کا مولائے کُل ، انیسِ تیامیٰ کہیں جسے بیواؤں کے دُکھوں کا مداوا کہیں جسے
ڈھارس بندھائی چشمِ عنایت کی آپ نے پانی پلایا پیار سے شفقت کی آپ نے دیں میٹھی میٹھی گولیاں راحت کی آپ نے جو تھی لہو کی پیاسی اُسے آسرا دیا پتّھر سے سخت دِل کو بھی پانی بنا دیا
خود اُس کے گھر میں پہنچے عیادت کو آنحضور تھا جسم جس کا زخمِ علالت سے چُور چُور دیکھا جو اُس نے سامنے ربِّ عُلیٰ کا نور بجلی رگوں میں دوڑ گئی انبساط سے بستر پہ اُٹھ کے بیٹھ گئی وہ نشاط سے
اُس دن گری نہ مٹّی نہ کوڑے کی کوئی صف حیراں ہوئے حضور کہ جس کا تھا میں ہدف وہ پیر زن کہاں ہے جو تھی گندگی بکف معلوم جب ہوا کہ وہ بیمار ہو گئی اُٹھنے سے چلنے پھرنے سے لاچار ہو گئی
وہ جس سے سالکوں کو ملیِ منزلِ اصول گردوں ہے جسکے پائے مبارک کے نیچے پھول وہ جس کے راستے کی مہ و کہکشاں ہیں دُھول پیغامِ حق کو لے کے وہ خیر البشر چلے طائف کی وادیوں کے مقدّر سنور چلے
ماحول سنگ سنگ تھا، موسم تھا گرد گرد پُر خوف راستوں میں رواں وہ عظیم فَرد چہرے تمام اجنبی ، لہجے تمام سَرد طائف کے کافروں میں پہنچ کر بنامِ رب سردارِ انبیاء نے سنایا پیامِ رب
دل کافروں کے بھر گئے بادِ غرور سے جو ذہن تھے اَٹے ہوئے گردِ فتور سے وہ مُستنیر ہو نہ سکے رب کے نور سے یہ مرحلے تھے جادۂ اسلام میں کڑے تبلیغ کے جواب میں پتّھر برس پڑے
مجنوں بتاتی تھی، کبھی شاعر بتاتی تھی اِک بڑھیا روز آپ پہ کوڑا گراتی تھی کوڑا گرا کے دیکھتی تھی ، مُسکراتی تھی اِک روز یوں ہوا کہ وہ بیمار ہو گئی گھر تک میں چلنے پھرنے سے لاچار ہو گئی
یہ سجدہ ریزی پیشِ دَد و دام چھوڑ دو غیر از خدائے پاک سبھی نام چھوڑ دو رب کے لئے پرستشِ اصنام چھوڑ دو ورنہ خدا کا قہر کچھ اتنا شدید ہے دوزخ کے لب پہ نعرۂ ’’ ہَل من مزید ‘‘ ہے
اِس ساری کائنات کا حاجت روا ہے ایک معبود سب کا ایک ہے مشکل کشا ہے ایک مولائے آب و آتش و خاک و ہوا ہے ایک مشہود وہ ہے اور میں اس کا شہید ہوں میں مصطفی رسولِ خدائے وحید ہوں ‘‘