وہ دریائے رواں لطف و کرم کا
وہ بحر بے کراں لطف و کرم کا وہ ہے کوہِ گراں لطف و کرم کا ظفرؔ وہ ہے جہاں لطف و کرم کا
معلیٰ
وہ بحر بے کراں لطف و کرم کا وہ ہے کوہِ گراں لطف و کرم کا ظفرؔ وہ ہے جہاں لطف و کرم کا
مجھے درپیش مشکل مرحلہ ہے خدا دِل میں ترے جلوہ نما ہے ظفرؔ تو کس خدا کو ڈھونڈتا ہے
خدا فرمانروا حاجت روا ہے خدا ہی قائم و دائم سدا ہے خدا کا نام ہر سُو گونجتا ہے
رہیں فضلِ خدا کے اُس پہ سائے کبھی روئے کبھی وہ مسکرائے سدا حمدِ خدا کے گیت گائے
زبوں حالیِ اُمت روح فرسا خداوندا مدد فرما خدارا ظفرؔ مانگے دُعا یہ دست بستہ
خدا کے دست قدرت میں ہے انسانوں کی پیدائش وہی مخلوق کا خالق، وہی روزی رساں سب کا ظفرؔ عز و شرف بھی دے وہی آرام و آسائش
تو حکیم ہے تو کریم ہے، تو عظیم ہے تو عظیم ہے لکھے نعت حمد کے درمیاں، لکھے حمد نعت کے درمیاں یہ ظفرؔ کا ذوقِ سلیم ہے، تو عظیم ہے تو عظیم ہے
وہ قلبِ مطمئن ہے ہر گھڑی مسرُور ہوتا ہے خدا کی یاد ہوتی ہے، خدا سے بات ہوتی ہے خدا خود سینۂ عُشاق میں مُستور ہوتا ہے
بفیضِ مصطفیٰ بیٹھے ہوئے ہیں اُٹھا دست دُعا بیٹھے ہوئے ہیں ظفرؔ کم تر گدا بیٹھے ہوئے ہی
ہے تو ہی رہنما ہر بے بصر کا ترے لطف و کرم سے ہے سُبک سر ظفرؔ تھا دل گرفتہ دِل شکستہ