یہی ارشاد ہے ربّ العلیٰ کا
یہی مسلک حبیبِ کبریا کا کرے انسان انساں سے محبت ہے یہ منشور انساں کی بقا کا
معلیٰ
یہی مسلک حبیبِ کبریا کا کرے انسان انساں سے محبت ہے یہ منشور انساں کی بقا کا
مرے مولا مجھے اپنی خبر دے دل و جاں میں تجھے محسوس کر لوں مری آہوں میں اتنا تو اثر دے
ترے جُود و سخا کا غلغلہ ہے تو قطرے کو بنا ڈالے سمندر ظفرؔ تیری عطائیں جانتا ہے
کوئی ناصر نہ مُونس تیرے جیسا، خداوندا تو ہم پہ رحم فرما ترے محبوب کی اُمت پریشاں، بھنور طوفان میں غلطاں و پیچاں ہے ساحل دُور اوجھل ہے کنارا، خداوندا تو ہم پہ رحم فرما
تو غفور ہے تو رحیم ہے تو حلیم ہے تو کریم ہے تو حکیم ہے تو عظیم ہے
جو رحمت کا محبت کا جہاں ہے، وہی تیرا خدا میرا خدا ہے وہ جو ہے بے سہاروں کا سہارا، جو طوفاں میں کرے پیدا کنارا وہ جو ننگے سروں پر سائباں ہے، وہی تیرا خدا میرا خدا ہے
خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے خدا مُونس شفیق و مہرباں ہے خدا دِل کا سکوں آرامِ جاں ہے
خدا انسان کے دل میں مکیں ہے خدا موجود ہر جا، ہر کہیں ہے خدا سا مہرباں کوئی نہیں ہے
ترے کانوں میں بھی رس گھولتا ہے نمازوں میں خدا کو دیکھ تو بھی تجھے تیرا خدا تو دیکھتا ہے
سمندر ایک قطرے کو بنائے خدا محفوظ رکھے حاسدوں سے خدا اشرار کے شر سے بچائے