خدا کے عشق میں مسرور رہنا
جمالِ فیض سے مسحُور رہنا بسا لینا خدا کو قلب و جاں میں سرُور و کیف سے مخمور رہنا
معلیٰ
جمالِ فیض سے مسحُور رہنا بسا لینا خدا کو قلب و جاں میں سرُور و کیف سے مخمور رہنا
ازل سے تا ابد جاری و ساری وہ بے آب و گیاہ بنجر زمیں کی کرے ابرِ کرم سے آبیاری
منور شش جہت، کون و مکاں ہیں وہ ہر سُو جلوہ فرما ہیں عیاں ہیں کہا کس نے وہ مستُور و نہاں ہیں
خدا کے ہی ملائک، اِنس و جاں ہیں خدا کے نُور سے روشن زماں ہیں خدا کے فیض کے دریا رواں ہیں
اُسی کا حمد گو سارا جہاں ہے مرا جذبِ درُوں سوزِ نہاں ہے ظفرؔ کی روح و جاں، قلبِ تپاں ہے
خدا موجود ہر جا ہر کہیں ہے خدا بندے کی شہ رگ سے قریں تر خدا عشاق کے دل میں مکیں ہے
تو اپنی رحمتوں کا ابربرسا، کہ تو ستّار بھی غفار بھی ہے کوئی تجھ سا سخی داتا نہ دیکھا کہ تو ستّار بھی غفار بھی ہے بھرم رکھ لے گدائے بے نوا کا، کہ تو ستّار بھی غفار بھی ہے
محبت آپ سے جب تک نہ ہو گی محبت گر نہ ہو خلقِ خدا سے خدا سے آگہی تب تک نہ ہو گی
سماں کیسا بھی ہو، کیسا بھی موسم خدا کی حمد گونجے ہر جہاں میں کبھی نہ گونج اِس کی ہو گی مدھم
کہاں تو میں کہاں اللہ ہی اللہ نہاں یادِ خدا ہے دل میں میرے عیاں وردِ زباں اللہ ہی اللہ