میں اِک بھُوکا تھا پیاسا تھا مُسافر
گِرا سرکار کے قدموں میں آ کر مٹائی بھوک آقا نے بجھائی پیاس میری محبت کی عطا اپنی، بنا ڈالا تونگر
معلیٰ
گِرا سرکار کے قدموں میں آ کر مٹائی بھوک آقا نے بجھائی پیاس میری محبت کی عطا اپنی، بنا ڈالا تونگر
میں لکھوں اللہ جل شانہٗ، صل علیٰ لکھوں حبیبِ کبریا اُن کو میں محبوبِ خدا لکھوں ظفرؔ خود کو درِ سرکار کا ادنیٰ گدا لکھوں
نہ اپنوں سے ہے، نہ اغیار سے ہے شہنشاہ نہ کسی سردار سے ہے محبت بس مجھے سرکار سے ہے
نہیں اُن سا کوئی کون و مکاں میں وہ محبوبِ خُدا و اِنس و جاں ہیں نہیں اُن سا ظفرؔ سارے جہاں میں
فضاؤں میں زمین و آسماں میں خدائی کے بھی محبوبِ خدا بھی قدم اُن کا قلوبِ عاشقاں میں
وہی تو قبلہ گاہِ عارفیں ہیں وہی مشکل کشائے متقیں ہیں ظفرؔ وہ رہنمائے سالکیں ہیں
مرے آقا کے قدموں میں جو گرتے ہیں سنبھلتے ہیں ولی، مجذوب واں پر عشق کے پیکر میں ڈھلتے ہیں ظفرؔ سے بے سہاروں کے مقدر واں بدلتے ہیں
کرم مجھ غم زدہ غمگیں پہ آقا ظفرؔ پر یک نگاہے لطف گاہے کرم کم کوش، کوتاہ بیں پہ آقا
کسی کو جاہ و حشمت سے نوازا مری سرکار کا احساں ہے مُجھ پر مجھے اپنی محبت سے نوازا
دِلوں میں عشق ہے، وارفتگی ہے مری سرکار کی آمد ہے سُن لو درُودوں کی فضا میں نغمگی ہے