جو چڑیاں چہچہاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی
جو حوریں گیت گاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی جو موجیں گنگناتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی جو کرنیں جگمگاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی
معلیٰ
جو حوریں گیت گاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی جو موجیں گنگناتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی جو کرنیں جگمگاتی ہیں، خدا کی حمد ہے وہ بھی
نحیف و ناتواں ہمسائے کو بھی تو سنبھالو جو مُنہ کے بل گرا ہے اُس کو بھی تھامو اُٹھا لو مرا جاتا ہے جو فاقے سے اُس کو بھی بچا لو
خدا قائم ہے دائم جاوداں ہے خدا حاجت روائے اِنس و جاں ہے محبت کا جہاں ہے، مہرباں ہے
ہر اِک گھر میں ہے وہ ہر آشیاں میں ہر اِک غنچہ و گل، ہر گلستاں میں خلاؤں میں خدا، کون و مکاں میں
مجھے بھرپور ذوقِ بندگی دے سرِ محشر ظفرؔ کی لاج رکھ لے نہ پیشِ مصطفیٰ شرمندگی دے
خدا موجود ہر منظر عیاں میں خدا موجود ہر اک روح و جاں میں خدا موجود ہر قلبِ تپاں میں
خدا ربِّ جہاں، عظمت نشاں ہے خدا موجود ہر انساں کے دل میں خدا ہی قبلہ گاہِ عاشقاں ہے
حبیبِ کبریا کی بات کہنا پذیرائی بھی ہو گی انشاء اللہ ظفرؔ حمد و ثناء دِن رات کہنا
خدا کی حمد میں ہر دم مگن ہوں، سرور و کیف ہے وارفتگی ہے میں مصروفِ ثناء صبح و مسا ہوں، خدا کی حمد سے دِبستگی ہے ظفرؔ کو یوں کیا سیراب رب نے، رہی باقی نہ کوئی تشنگی ہے
قطب ابدال بھی سارے، خدا کے سب پیمبر بھی تمامی اولیاء بھی اور مجذوب و قلندر بھی سبھی راہرو مسافر بھی، سپہ سالار رہبر بھی