خدا کے نُور سے روشن جہاں ہیں
درخشندہ سبھی کون و مکاں ہیں منور نُور سے ہی جسم و جاں ہیں ظفرؔ عشاق کے قلبِ تپاں ہیں
معلیٰ
درخشندہ سبھی کون و مکاں ہیں منور نُور سے ہی جسم و جاں ہیں ظفرؔ عشاق کے قلبِ تپاں ہیں
خدا ہی خالقِ ارض و سما ہے وہی مختارِ کل، فرمانروا ہے وہی حاجت روا، مشکل کشا ہے
خدائے ہر زماں سب کا خدا ہے خدائے اِنس و جاں سب کا خدا ہے خدا ہی بے گماں سب کا خدا ہے
محمد رحمۃ اللعالمیں ہیں خدا داتا ہے اَور قاسم محمد ظفرؔ دونوں کے در کے خوشہ چیں ہیں
سبھی افلاک سے وہ ماوراء ہے ظفرؔ ڈھونڈھو خدا کو دل میں اپنے شعور ادراک سے وہ ماوراء ہے
بڑی مشکل میں انساں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما پسارا ہم نے داماں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما ظفرؔ گریاں و نالاں ہے، خدائے مہرباں امداد فرما
جمالِ دل براں پرتو خدا کا بہارِ گلستاں پرتو خدا کا ظفرؔ حُسنِ زماں پرتو خدا کا
مجھے مشکلوں سے نکال دے مجھے سیدھی راہ پر ڈال دے مجھے اپنی چاہ میں ڈھال دے
محبت اپنے بندوں سے خدا کی محبت غیر فانی، جاودانی ہے اُمت سے حبیبِ کبریا کی
ثناء خوانوں کا مرکز گھر خدا کا ظفرؔ اُمت کی وحدت کا نشاں ہے سب انسانوں کا مرکز گھر خدا کا