خدا کی ذات پر ہر انس و جاں بھی ناز کرتا ہے
زمیں بھی ناز کرتی، آسماں بھی ناز کرتا ہے ظفرؔ ساری خدائی بھی خدا پر ناز کرتی ہے محمد پر خدائے مہرباں بھی ناز کرتا ہے
معلیٰ
زمیں بھی ناز کرتی، آسماں بھی ناز کرتا ہے ظفرؔ ساری خدائی بھی خدا پر ناز کرتی ہے محمد پر خدائے مہرباں بھی ناز کرتا ہے
فروزاں چاند، تابندہ ستارے خدا کے نُور سے روشن ظفرؔ ہیں ہمارے جسم و جاں، دل بھی ہمارے
جمالِ کبریا کے ترجماں ہیں، ہر اِک غنچہ و گل، صحنِ گلستاں خدا کے نور کا پرتو ہیں، خورشید و مہ و انجم فروزاں خدائے مہرباں اُمت پہ ہو تیرا کرم، ہر دم فراواں
خدا کے لطف کی برسات لکھوں ثناء و حمد کے کلمات لکھوں حبیبِ کبریا کی بات لکھوں
مَیں خوشبوئیں لگاتا ہوں، لباس اُجلا پہنتا ہوں خدا کرتا عطا ہے جب وصال و جذب کی حالت ظفرؔ مرمر کے جیتا ہوں، کبھی جی جی کے مرتا ہوں
خدا میرا ہے معبودِ خلائق، وہ مسجودِ ملائک، اِنس و جاں ہے خدا ستار بھی غفار بھی ہے، خدا میرا خلیق و مہرباں ہے خدا ہی چارہ ساز و چارہ گر ہے، خدا کے زیر فرماں ہر جہاں ہے
نگہبان و محافظ ہے ہماری خدائی رحمتوں کا سلسلہ ہے ازل سے تا ابد جاری و ساری
شعور و آگہی، عرفان بخشا ملایا جس نے بندوں کو خدا سے وہ رہبر حاملِ قران بخشا
نظر کے سامنے ہر دم حرم ہے جلالِ کبریا، جاہ و حشم ہے ظفرؔ کی اشک افشاں چشمِ نم ہے
گنہگاروں کا تُو غفار بھی ہے تہی دستوں کا پالن ہار بھی ہے دلِ بیمار کا دل دار بھی ہے