ہے عشق اُن کا فزوں تر کیف و مستی رنگ لائی ہے
محبت آپ کی میرے رگ و پے میں سمائی ہے بباطن قرب و یک جائی بظاہر گو جدائی ہے اُنہیں کے دم سے تابندہ ظفرؔ ساری خدائی ہے
معلیٰ
محبت آپ کی میرے رگ و پے میں سمائی ہے بباطن قرب و یک جائی بظاہر گو جدائی ہے اُنہیں کے دم سے تابندہ ظفرؔ ساری خدائی ہے
ہے جاری ہر گھڑی فیضان اُن کا بڑا ہی پُر شکوہ یہ مرتبہ ہے سگِ در ہے ظفرؔ دربان اُن کا
یہاں ہر سو ہجومِ عاشقاں ہے سلامی کو ملائک آ رہے ہیں خمیدہ سر یہاں ہر انس و جاں ہے
سرُور و کیف و مستی کا سماں ہے ہویدا آج ہرسّرِ نہاں ہے ظفرؔ ہر رازِ سربستہ عیاں ہے
وہ احمد ہیں محمد مصطفیٰ ہیں وہی بے آسروں کا آسرا ہے شہنشاہ بھی اُسی در کے گدا ہیں
اور کچھ آرزو نہیں میری آپ کے در سے پیار پایا ہے بات بگڑی بنی یہیں میری
میرے آقا، میرے مولا، رحمۃ اللعالمیں حُسنِ صورت، حُسنِ سیرت، حُسنِ کردار و عمل آپ سا کوئی نہیں ہے آپ سا کوئی نہیں
نقش پا اُن کا میرے سر کے لیے اِک جھلک میرے کملی والے کی روشنی چشمِ بے بصر کے لیے
رُخِ روشن کی اِک جھلک مولا میرا سویا نصیب جاگ اُٹھا خواب میں دیکھ کر رُخِ زیبا
جمالِ مصطفائی ہے وہاں تک خدا بندے کی شہ رگ سے قریں تر رسائی آپ کی قلبِ تپاں تک