آرزو ہے کہ اُن کا گھر دیکھوں
اُن کی چوکھٹ پہ اپنا سر دیکھوں موت آ جائے اُس گھڑی مجھ کو جس گھڑی اور کوئی در دیکھوں
معلیٰ
اُن کی چوکھٹ پہ اپنا سر دیکھوں موت آ جائے اُس گھڑی مجھ کو جس گھڑی اور کوئی در دیکھوں
فیض کا بحر بیکراں دیکھوں وہ جو محبوبِ کبریا ہیں ظفرؔ اُن کو قرآں کا ترجماں دیکھوں
آپ کی نعت ہی سُنوں آقا ایک لمحہ نہ یوں مرا گزرے آپ کی یاد بِن جیوں آقا
شبِ معراج قربت کی مُودت کی کہانی ہے ہوا نازل کلامِ کبریا محبوبِ یزداں پر مری سرکار کا منصب خدا کی ترجمانی ہے
خود کو حفظ و امان میں رکھنا دیکھ کر خواب میں رُخ زیبا دیدہ و دِل میں جان میں رکھنا
اُن کی راہوں میں کہکشاں دیکھوں اُن کے قدموں میں آسماں دیکھوں سب جہانوں میں سب زمانوں میں عظمتِ مصطفیٰ عیاں دیکھوں
نہیں ہے چاہ کوئی جاہ و حشمت، کروفر کی یہی گریہ و زاری ہے ظفرؔ مسکیں گداگر کی درِ حضرت پہ مل جائے جگہ اُس کو سگِ در کی
پھول کھِلتے ہیں دیپ جلتے ہیں مرا سرمایہ ہیں وہ آنسو جو نعت کہتے ہوئے برستے ہیں
نعت لکھنے کی آس ہوتی ہے نعت کے شعر جب میں لکھتا ہوں روشنی آس پاس ہوتی ہے
تو مجھ سا بے زباں معجز بیاں ہو میں لکھوں نعت محبوبِ خدا کی تو دُوری میں حضوری کا سماں ہو