گوشوارہ

کیا حال سنائیں دنیا کا، کیا بات بتائیں لوگوں کی دنیا کے ہزاروں موسم ہیں، لاکھوں ہی ادائیں لوگوں کی کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں، دنیا کو سنانے کے قابل کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں، بس دل میں چھپانے کے قابل کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں، اک بار گئے تو آتے نہیں ہم لاکھ بلانا […]

زندگی کے رنگوں سے بام و در سجانے میں

ایک عمر لگتی ہے گھر کو گھر بنانے میں بام و در کو حیثیت آدمی سے ملتی ہے خالی گھر نہیں ہوتے معتبر زمانے میں نفرتوں کے بدلے میں ہم کسی کو کیا دیں گے خرچ ہو گئے ہم تو چاہتیں کمانے میں پھول کھل اٹھے دل میں، شبنمی ہوئیں آنکھیں ذکر آ گیا کس […]

کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے

لوگ رستے میں ہوں اتنے تو کنارے چلئے اب تو مجبور یا مختار گزارے چلئے قرض جتنے ہیں محبت کے اتارے چلئے جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دے گا ہو کے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے اُن کے لائق نہیں کچھ اشکِ محبت کے سوا بھر کے دامن میں یہی چاند ستارے […]

گرمیِ شہر ضرورت سے پگھل جاؤ گے

نہیں بدلے ہو ابھی تک تو بدل جاؤ گے اس چمکتے ہوئے دن کو نہ سمجھنا محفوظ اپنے سائے سے بھی نکلو گے تو جل جاؤ گے گردش وقت ہے آتی ہے سبھی کے سر پر وقت گزرے گا تو اس سے بھی نکل جاؤ گے یہ محبت کے مقامات ہیں اے جان نظر اتنا […]

سر پہ رکھے گا مرے دستِ اماں کتنی دیر

باد بے درد میں تنکوں کا مکاں کتنی دیر پوچھتی ہیں مری اقدار مرے بچوں سے ساتھ رکھو گے ہمیں اور میاں کتنی دیر بجھ گئی آگ تمناؤں کی جلتے جلتے کچھ دھواں باقی ہے لیکن یہ دھواں کتنی دیر رزق برحق ہے مگر یہ کسے معلوم کہ اب رزق لکھا ہے مقدر میں کہاں […]

مجھ کو حصارِ حلقۂ احباب چھوڑ کر

صحرا ملا ہے گلشن شاداب چھوڑ کر ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کر سب کچھ بہا کے لے گئی اک موجِ اشتعال دریا اتر گیا ہمیں غرقاب چھوڑ کر اوج فلک سے گر گیا تحت الثریٰ میں عشق طوفِ حریمِ ناز کے آداب چھوڑ کر مسجد کی […]

وہ بھی اب مجھ کو بہ اندازِ زمانہ مانگے

برسرِ عام محبت کا تماشا مانگے جسے پندار مرے ظرفِ محبت نے دیا اب وہ پہچان محبت کے علاوہ مانگے میں تو اسرافِ محبت میں ہوا ہوں مقروض دوستی ہر گھڑی پہلے سے زیادہ مانگے راحتِ وصل بضد ہے کہ بھلا دوں ہجراں چند لمحے مجھے دے کر وہ زمانہ مانگے مدّتیں گذریں کئے ترکِ […]

سنگ آئے کہ کوئی پھول، اٹھا کر رکھئے

جو ملے نام پر اُس کے وہ سجا کر رکھئے سجدۂ عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے دل پہ اُترا ہوا اک حرفِ محبت نہ مٹے اسمِ اعظم ہے یہ تعویذ بنا کر رکھئے گر کے خاشاک ہوا جس میں انا کا شیشم ہے وہی خاکِ […]

منزل کو جانتا تھا، اشارہ شناس تھا

ٹھہرا نہ وہ کہیں جو نظارا شناس تھا انجام لکھ گیا مرا آغازِ عشق سے اک شخص کس بلا کا ستارہ شناس تھا ساگر کی سرکشی سے میں لڑتا تھا جن دنوں واقف ہوا سے تھا نہ کنارہ شناس تھا ہوتا نہ بے وفا تو گزرتی بہت ہی خوب میں خوگرِ زیاں، وہ خسارہ شناس […]

اُن لبوں تک اگر گیا ہو گا

شعر میرا نکھر گیا ہو گا ترکِ الفت نہیں تھی خو اُس کی میری حالت سے ڈر گیا ہو گا اعتباراُس کے دل سے دنیا کا جانے کس بات پر گیا ہو گا؟ زہر پینے سے کون مرتا ہے کوئی غم کام کرگیا ہو گا پاؤں اٹھتے نہیں دوانے کے کوئی زنجیر کر گیا ہو […]