اُجلی ردائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ

آئینہ مت دکھائیے، جھوٹا کہیں گے لوگ شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے لوگ واقف ہیں رہبروں سے یہ عادی سراب کے دریا دکھائیے گا تو صحرا کہیں گے لوگ شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھالئے پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ آغازِ […]

چراغِ شام جلا ہے کہ دل جلا کوئی

حصارِ ضبطِ فغاں سے نکل چلا کوئی نہ کوئے یار میں آوارہ کوئی دیوانہ نہ بزمِ یار میں باقی ہے منچلا کوئی بدل گیا ہے سراسر مزاجِ اہلِ جنوں نہ شوقِ مرگ نہ جینے کا ولولہ کوئی سلامت آ گئے مقتل سے غازیانِ عشق نہ سر گرے ہیں نہ خیمہ کہیں جلا کوئی عجیب راہئ […]

سخن رہے گا، سخنور بھی کم نہیں ہوں گے

یہ اور بات ہے کاغذ قلم نہیں ہوں گے ملے گا شورِ ستائش تو شعر خوانوں کو سخن شناس کنائے بہم نہیں ہوں گے جو چل بھی جائے نظر پر طلسمِ نقش و نگار حروفِ خام تو دل پر رقم نہیں ہوں گے مذاقِ شعر بدل دے گا جب مزاجِ ہنر خدا کا شکر ہے […]

گھر بسانے کی تمنا کوچۂ قاتل میں ہے

زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے چاک کو دیتے ہیں گردش دیکھ کر گِل کا خمیر اک پرانی رسم ہم کوزہ گرانِ گِل میں ہے مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار دائرہ کیسے بنے، پرکارِ جاں […]

ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا

وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا مکمل ہوا دائرہ زندگی کا یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا خبر کوئی کر دے دلِ بے خبر […]

میں اشکبار ہوں نا ممکنہ کی خواہش میں

میں اشکبار ہوں ناممکنہ کی خواہش میں نمک مثال گھلے جا رہا ہوں بارش میں دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں خمارِ شام، غمِ تیرگی، امیدِ سحر عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں بجا ہے طعنۂ باطل مری دلیلوں پر ہزار […]

قریۂ سیم و زر و نام و نسب یاد آیا

پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی دور وہ دل سے ہوا کب، ہمیں کب یاد آیا کارِ بیکار جسے یاد کہا جاتا ہے بات بے بات یہی کارِ عجب یاد آیا ق پارۂ ابر ہٹا سینۂ مہتاب سے جب عشوۂ ناز سرِ خلوتِ […]

چُبھی ہے دل میں وہ نوکِ سنانِ وہم و گماں

ہوا ہے نقشِ سویدا نشانِ وہم و گماں میں ایک سایۂ لرزاں ہوں ہست و نیست کے بیچ مرا وجود ہے بارِ گرانِ وہم و گماں نہ کھا فریب خریدارِ رنگ و بوئے چمن محیطِ صحنِ چمن ہے دکانِ وہم و گماں قدم قدم پہ ہے دامن کشاں یقینِ بہار روش روش پہ ہویدا خزانِ […]

آخر میں کھلا آ کر یہ راز کہانی کا

انجام سے ہوتا ہے آغاز کہانی کا اس عہدِ تصنع کی ہر بات ہے پردوں میں عنواں نہیں ہوتا اب غماز کہانی کا تکرار بناتی ہے اب جھوٹ کو سچائی تشہیر بدلتی ہے انداز کہانی کا لے آتا ہے منظر پر، جب چاہے نیا کردار رکھا ہے مصنف نے در باز کہانی کا بننا ہی […]

اِن غزالوں کو بھلا کس کے ٹھکانے کی خبر

پوچھئے خارِ مغیلاں سے دِوانے کی خبر خاک چھانوں تری گلیوں کی بتا میں کب تک دے مرے شہر کوئی یار پرانے کی خبر اب خبر ملتی نہیں اُن کی زمانے میں کہیں وہ جو رکھتے تھے کبھی سارے زمانے کی خبر تیر ایسے بھی حلیفوں کی کمانوں میں ہیں آج جن کے ترکش کا […]