میں بھی کسی کے درد کا درمان بن گیا

ادنیٰ سا آدمی تھا میں انسان بن گیا اپنی حدیں ملی ہیں تو ادراکِ حق ہوا عرفانِ ذات باعثِ ایمان بن گیا ہمسر تھا جبرئیل کا جب تک تھا سجدہ ریز جیسے ہی سر اٹھایا تو شیطان بن گیا خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا کچھ بھی […]

اس خاک سے جو ربطِ وفا کاٹ رہے ہیں

پرواز کی خواہش میں سزا کاٹ رہے ہیں اس روزِ خوش آثار کی سچائی تو یہ ہے اک رات سر دشتِ بلا کاٹ رہے ہیں حبس اتنا ہے سینے میں کہ لگتا ہے مسلسل ہم سانس کے آرے سے ہوا کاٹ رہے ہیں بیکار کہاں بیٹھے ہیں مصروف ہیں ہم لوگ ہم اپنی صداؤں کا […]

کچھ جرم نئے اور مرے نام لگا دو

باقی ہے اگر کوئی تو الزام لگا دو کیوں کرتے ہو دربارِ عدالت کا تکلف جو حکم لگانا ہے سر عام لگا دو افسانہ ہمارا ہے، قلم سارے تمہارے عنوان جو چاہو بصد آرام لگا دو دیوانوں کو پابندِ سلاسل نہ کرو تم ذہنوں میں بس اندیشۂ انجام لگا دو جب آ ہی گئے برسرِ […]

ماں کے دامن کی طرح پھیلا ہے خالی آنگن

گھر کی دہلیز پہ بیٹھا ہے سوالی آنگن لمس باقی نہ رہے پھول کھلانے والے منتظر ہے لئے سوکھی ہوئی ڈالی آنگن گھر کے دامن سے تو ملتے ہیں کئی گل کئی خار صرف افسانوں میں ہوتے ہیں مثالی آنگن وسعتیں دیتا ہے کتنی مرے چھوٹے گھر کو دل میں آباد ہے اب تک جو […]

جہاں پر آبِ رواں سے چٹان ملتی ہے

وہیں سے موج کو اکثر اٹھان ملتی ہے جہاں بھی دستِ توکل نے کچھ نہیں چھوڑا وہیں سے دولتِ کون و مکان ملتی ہے جو قفلِ ذات کرے ضربِ عشق سے دو نیم اُسے کلیدِ زمان و مکان ملتی ہے کریں گمان تو جاتی ہے دولتِ ایمان رہے یقین تو پھر بے گمان ملتی ہے […]

مٹی سنوار کر مری، دیپک میں ڈھال دے

مجھ کو جلا کے پھر مری دنیا اُجال دے مجھ کو اُٹھا کے رکھ کسی طوفاں کی آنکھ میں ہر موج مضطرب مرے سر سے اچھال دے ٹکرا دے حوصلہ مرا آلام زیست سے مرنے کی آرزو کو بھی دل سے نکال دے پامال راستوں سے ہٹا کر مرے قدم نایافت منزلوں کے اشارے پہ […]

دل کہ اک جزیرہ ہے

دل کہ اک جزیرہ ہے گہرے سرد پانی میں منجمد سفینہ ہے درد کی روانی میں برف سارا عالم ہے سرمئی سے موسم میں منجمد سے روز و شب کُہر کے نقابوں سے چہرہ تکتے رہتے ہیں اجنبی زبانوں میں اَن کہی سی کہتے ہیں اک طرف شمال کی ہفت رنگ روشنی آرزو کے پردے […]

زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہو گئے

ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہو گئے جو راس تھا ہمیں وہی قسمت نے لکھ دیا ہم جور آشنا تھے ستم گر کے ہو گئے نکلے تھے ہم جزیرۂ زر کی تلاش میں ساحل کی ریت چھوڑ کے ساگر کے ہو گئے کچھ ایسا رائگانیِ دستک کا خوف تھا پہلا جو در […]

لُٹا ہے میرا خزانہ مرے برابر سے

بدل گیا وہ ٹھکانہ مرے برابر سے جو تِیر میرا نہیں تھا اُسی کا مجرم ہوں لیا گیا تھا نشانہ مرے برابر سے پلٹ کے کر گیا تلقین مجھ کو رُکنے کی ہوا ہے جو بھی روانہ مرے برابر سے بڑھا گیا مرا احساسِ عمر رفتہ کچھ اور گزر کے یار پرانا مرے برابر سے […]

ویسے میں ہر حلیف سے محروم تو ہوا

کس کس کی زد پہ ہوں مجھے معلوم تو ہوا کھوئے ہوئے کھلونے کی انتھک تلاش میں دنیا سے آشنا کوئی معصوم تو ہوا بکھرا ہوا تھا میرا فسانہ مری طرح اشعار کے بہانے سے منظوم تو ہوا لکھا گیا ہوں گرچہ خسارے کے باب میں لیکن تری کتاب میں مرقوم تو ہوا پھر سے […]