پتھر ہی رہو، شیشہ نہ بنو

پتھر ہی رہو، شیشہ نہ بنو شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں اِس شہر میں خالی چہروں پر آنکھیں تو اُبھر آئی ہیں مگر آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں خاموش رہو، آواز نہ دو کانوں میں سماعت سوتی ہے سوچوں کو ابھی الفاظ نہ دو احساس کو زحمت ہوتی ہے اظہارِ حقیقت کے لہجے سننے […]

میں ہوں چہرہ تری خواہش کا، مرے بعد تو دیکھ

آئنہ دیکھ تو دانش کا، مرے بعد تو دیکھ مجھ پہ ناکامی کے عنوان ابھی سے نہ لگا تُو نتیجہ مری کاوش کا مرے بعد تو دیکھ تُو مرے ہاتھ میں بجھتی ہوئی مشعل پہ نہ جا دُور تک سلسلہ تابش کا مرے بعد تو دیکھ پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی مانا، لیکن قطرہ […]

پہاڑ، دشت، سمندر ٹھکانے دریا کے

زمیں کو رنگ ملے ہیں بہانے دریا کے کبھی سمندروں گہرا، تو ہے کبھی پایاب بدلتے رہتے ہیں اکثر زمانے دریا کے سفینہ سب کا سمندر کی سمت میں ہے رواں مگر لبوں پہ مسلسل ترانے دریا کے نہیں چٹان کے سینے پہ یوں ہی چادرِ آب ہیں آبشار کے پیچھے خزانے دریا کے بھنور […]

پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے

ہم خاک پہ رہتے ہیں خلا میں نہیں رہتے قامت بھی ہماری ہے، لبادہ بھی ہمارا مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے خاشاکِ زمانہ ہیں، نہیں خوف ہمیں کوئی آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں […]

پگھل کر روشنی میں ڈھل رہوں گا

نظر آ کر بھی میں اوجھل رہوں گا بچھڑ جاؤں گا اک دن اشک بن کر تمہاری آنکھ میں دو پَل رہوں گا ہزاروں شکلیں مجھ میں دیکھنا تم سروں پر بن کے میں بادل رہوں گا میں مٹی ہوں، کوئی سونا نہیں ہوں جہاں کل تھا، وہیں میں کل رہوں گا بدن صحرا ہے […]

اپنے سر تیرے تغافل کا بھی الزام لیا ہے

خود فریبی کا ستم دل پہ کئی بار کیا ہے دل نے اس طرح مداوائے غمِ عشق کیا ہے اک نیا زہر ترے ہاتھ سے ہر روز پیا ہے غم ترا مجھ کو جلاتا نہیں کرتا ہے منوّر ہاتھ پر آگ نہیں یہ تو ہتھیلی پہ دیا ہے عشق سچّا ہو تو کرتا ہے ہر […]

ایک منظر پسِ منظر بھی دکھایا جائے

سانحہ گیارہ ستمبر کے بعد میڈیا کے رویے اور کردار کے حوالے سے لکھی گئی ایک غزل ایک منظر پسِ منظر بھی دکھایا جائے لوح سادہ کو پلٹ کر بھی دکھایا جائے ناتواں ہاتھ میں مجبور سے پتھر کے خلاف ظلم کا آہنی لشکر بھی دکھایا جائے سرنگوں مجھ کو دکھاتے ہو بتقریبِ شکست پھر […]

بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا

وہ مرا شوخ ستارہ جو گگن چھوڑ گیا خواب تو خواب مجھے نیند سے ڈر لگتا ہے جانے والا مری پلکوں پہ شکن چھوڑ گیا اُس نے بھی چھوڑ دیا مجھ کو زمانے کے لئے جس کی خاطر میں زمانے کے جتن چھوڑ گیا کسی زیور کی طرح اُس نے نکھارا مجھ کو پھر کسی […]

اشکِ کم ظرف مرا ضبط ڈبو کر نکلا

میں جسے قطرہ سمجھتا تھا سمندر نکلا جذبۂ شوقِ نظارہ بھی مری آنکھ میں تھا حسنِ نظارہ بھی اس آنکھ کے اندر نکلا بارہا دستِ مسیحا سے بھی کھائے ہیں فریب ہم نے نشتر جسے سمجھا وہی خنجر نکلا ہم سمجھتے تھے کہ سادہ ہے محبت کی کتاب حاشیہ اس میں مگر متن سے بڑھ […]