کیسے ترسیلِ سخن کی کوئی صورت نکلے
یہ زباں میری نہیں ہے نہ یہ لہجہ میرا
معلیٰ
یہ زباں میری نہیں ہے نہ یہ لہجہ میرا
باتیں اس کی وزن سے خالی لہجہ بھاری بھرکم ہے
صرف زباں کی نقالی سے بات نہ بن پائے گی حفیظؔ دل پر کاری چوٹ لگے تو میرؔ کا لہجہ آئے ہے
لب و لہجہ مگر ہاں ہو بہ ہو تھا
گل و گلچیں کا گلہ بلبل خوش لہجہ نہ کر تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث
آنکھ جیسے کوئی سمندر ہو اور لہجہ شراب تھا اس کا
آج کل تلخیاں فرماتا ہے
میری بات سنے گا کون
جیسے کانوں نے شاعری چکھی
ترا لہجہ ابھی تلوار پہلے کب ہوا تھا