بات کرنے کا ترے رنگ برنگا لہجہ
زندگی کو مری رنگین بنا دیتا ہے
معلیٰ
زندگی کو مری رنگین بنا دیتا ہے
کہیں اندر ہی ٹوٹے ہوں گے الفاظ ابھی تک تیرا لہجہ چبھ رہا ہے
لہجہ مگر ہے صاف کدورت لیے ہوئے
سوا اس کے کوئی حاجت کہاں تھی
اس کا درشت لہجہ اسے اس طرح پھبا سلکی بدن پہ جیسے سجے کھردری قمیض
آتشیں ہے لہجہ بھی گفتگو بھی بارودی سوچیے شفیقؔ اس سے کس طرح نبھانا ہے
ترا لہجہ بھی بولنا پڑ گیا ہے
تیرا لہجہ کہیں مہکار سے جا ملتا ہے
اپنے انداز تکلم کو بدل دے ورنہ میرا لہجہ بھی ترے ساتھ بدل سکتا ہے
کہ میں خوشبو کا لہجہ جانتا ہوں سمندر بن کے جو ملتا ہے مجھ کو میں اس کو قطرہ قطرہ جانتا ہوں