اُس کی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

یعنی اب عشق دستیاب نہیں شہر تبدیل کر کے دیکھا ہے میری قسمت میں انقلاب نہیں دیکھنے والا مر گیا صاحب آج بھی آپ بے نقاب نہیں! شاعری بھی ہے لاجواب مگر آپ کے حسن کا جواب نہیں اُلٹا الزام پڑ گئے ہیں گلے نیکیاں باعثِ ثواب نہیں کیسے مانوں کہ غم برابر ہیں تیرے […]

اُس کی آواز جب سنی جائے

روشنی، دھوپ سے پنی جائے اُس کے لہجے کی تال، می رقصم حال میں روح بھی دھنی جائے اُس کی زلفوں کی کہہ رہی ہے چمک شال بھی ریشمی بُنی جائے چاہتا ہے یہ دل کہ آج اُس کی ان سنی گفتگو، سنی جائے خواب آنکھوں میں جھلملانے لگیں نیند پلکوں سے یوں چنی جائے

اٹھا ہوں گر کے ، مرا حوصلہ کمال کا تھا

پہ منتظریہ زمانہ مرے زوال کا تھا قریب ِ مرگ کہیں راز قربتوں کا کھلا فریبِ چشم تھا، وہ واہمہ خیال کا تھا تمام لوگ جو بولے تو میں بھی چیخ اٹھا جواب جانے یہ کس شخص کے سوال کا تھا گھٹا میں ،پھول میں ، پیڑوں میں ،چاند تاروں میں جہان بھر میں ہی […]

بس ایک جیسے ملے لوگ بار بار مجھے

کہ تجربہ نہ ہوا کوئی خوشگوار مجھے بہت دنوں سے جو الجھن ہے ، مجھ کو لگتا ہے ملے گا جاں سے گزر کر ہی اب قرار مجھے کسی بھی شے کے مناسب جگہ نہیں کوئی پسند آتا ہے کمرے کا انتشار مجھے میں عمر بھر جسے پلکوں پہ لے کے پھرتا رہا وہ چاند […]

تمھارے شہر کے بازار تک نہیں پہنچا

یہ عشق آخری آزار تک نہیں پہنچا یہ اور بات کہ بیٹھا ہے میرے پہلو میں ابھی بھی تو مرے معیار تک نہیں پہنچا یہ دشت ِ عشق ہے اور اس میں دھوپ کی شدت وہ جانتا ہے جو دیوار تک نہیں پہنچا ہر ایک شخص ہے انجام کا تمنائی سوکوئی مرکزی کردار تک نہیں […]

جو عکس جیسا، جہاں رکھ دیا، نہیں بدلا

کہ خواب میں بھی کبھی آئنہ نہیں بدلا تمام عمر محبت کا شہد کھاتے رہے سو تلخیوںنے کبھی ذائقہ نہیں بدلا خرد نے میرے جنوں پر ہزارفتوے دیے مری یہ سوچ ، مرا فلسفہ نہیں بدلا وفا کی راہ گزرتی ہے ہوکے مقتل سے میں جانتا تھا مگرراستہ نہیں بدلا لکھا ہوا تھا لکیروں میں […]

دل و دماغ سے اترا نہ کَوملیں لہجہ

مہک رہا ہے ابھی تک وہ عَنبریں لہجہ کہ آپ جیسی کسی اور میں نہیں ہے بات کہ آپ جیسا کسی اور کا نہیں لہجہ پھر اس کے بعد کٹی عمر بدگمانی میں بس ایک بار سنا اس کا بے یقیں لہجہ یہ کس نے کر دیا اُس کو کچھ اور بھی انمول یہ کس […]

عشق سے مجھ کو انحراف نہ تھا

خون لیکن مرا معاف نہ تھا ہم ہنسے تھے کہ لفظ رونے لگے ضبط کا شعر پر غلاف نہ تھا اس نے دیوار پر لکھا تھا مجھے کوئی بھی لفظ صاف صاف نہ تھا دائرے کا تجھے رکھا مرکز یہ مرا عشق تھا ، طواف نہ تھا کہہ دیا اُس نے حالِ دل اک دن […]

قطرہ قطرہ لہو پلاتے ہوئے

میں مرا عشق کو بچاتے ہوئے آنکھ آئینے میں گنوا آیا تشنگی عکس کی بجھاتے ہوئے ڈھلتے سائے میں ڈھل گئی آخر دھوپ، سایہ مرا جلاتے ہوئے تیری جانب رہا سفر میرا راستہ اپنا خود بناتے ہوئے غم کی قندیل بھی بجھا آئے ہم ترا ظرف آزماتے ہوئے ہاتھ اس کے بھی جل گئے ہوں […]