ایسے موسم میں بنا کام کے آیا ہوا شخص
اتنی جلدی ترے دفتر سے نہیں نکلے گا
معلیٰ
اتنی جلدی ترے دفتر سے نہیں نکلے گا
کیا میں اس کو لکھ کر بھیجوں آؤ کافی پیتے ہیں کیا اس کو معلوم نہیں ہے موسم کتنا آسم ہے ؟
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
مجھے عزیز ہیں غم تیری شادمانی کے
کسی حَسِین کو آواز دو خدا کے لِیے
کہ بدلا ہی نہیں جاناں تمہارے بعد کا موسم
سرد موسم نے ٹھٹھرتے ہوئے سورج سے کہا چادر ابر تو ہے ، ڈھانپ لے عریانی کو
عظیم تر ہے عبادت شباب کی لیکن یہی گناہ کا موسم ہے کیا کیا جائے
رُت بدلتی ہے تو زنجیر بدل جاتی ہے