تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا
رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
معلیٰ
رِیت اِس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
یہی موسم جناب دے دیجئے
تم بھی شاید وہیں سے آئے ھو اچھے موسم جہاں سے آتے ھیں
سب تیرے بچھڑنے کے اِشارے ہیں کم و بیش
یہ برف موسم جو شہرِ جاں میں کُچھ اور لمحے ٹھہر گیا تو لہو کےدل کا کسی گلی میں قیام ممکن نہیں رہے گا
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں
آئینہ ہنسنے لگا ہے میری تیاری پر
اس میں شامل ہے سرد مہری بھی
میری خود سے رہیں ملاقاتیں
تمہارے وصل کے لمحے نہ میری جاں گزرے