عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اُڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں
معلیٰ
وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں
موسم کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے رنگ و روپ یہ پیڑ واقعی کوئی انسان ہی نہ ہو
غم کے بادل بھی ہو گئے گہرے
وہ میرا نام لیے جائے اور میں اُس کا نام لہو میں گُونج رہا ہے پکار کا موسم
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی
اپنے اپنے مزاج کا موسم
تنہائیوں کا جشن منانا پڑا ہمیں
سب تیرے بچھڑنے کے اشارے ہیں کم و بیش
اچھے موسم میں جھڑ رہا ہوں میں
موسم اس واسطے اچھا ھے کہ تُو سیر کرے