تمہاری یاد سے موسم خراب ہوتا ہے
ہر شب مری روح کا احتساب ہوتا ہے
معلیٰ
ہر شب مری روح کا احتساب ہوتا ہے
کچھ اب کے اور ھے ہجرانِ یار کا موسم یہی جنوں کا، یہی طوق و دار کا موسم یہی ھے جبر، یہی اختیار کا موسم
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
مگر تمہارے بدن میں لچک بہت ہے ابھی
اپنی ہی تصویر میں چہرہ پرانا ہو گیا
پارہ بھرا ہوا ہے دلِ بیقرار میں
ہے پھول صرف وہ جو سرِ زلف یار ہو
ہم کسی رُت میں بھی ہرے نہ ہوئے
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا موسم آۓ ہی نہیں اب کے گلابوں والے
کیا اس کو معلوم نہیں ہے موسم کتنا آسم ہے