کارواں چل پڑا میرے سالار کا

سارے محشر میں چرچا ہے سرکار کا سائبانوں کی مجھ کو ضرورت نہیں سرپہ سایہ ہی کافی ہے سرکار کا میرے آقا ! خُدارا کرم کیجیے آپ ہی تو وسیلہ ہیں لاچار کا آپ ہی نے بچایا تو بچ جاؤں گا سامنا ہے مجھے آج منجدھار کا ایک دامن ہی محشر میں کام آئے گا […]

غم ہے افتاد پرانی میری

دور ہو کاش گرانی میری تیری یادوں سے ہے آباد شہا! ’’جو حویلی تھی پرانی میری‘‘ تیری یادوں سے جڑی ہے آقا! ہے جو سانسوں میں روانی میری ہوں تِرا اور رہوں گا تیرا یہ ہے سرکار ! کہانی میری ہوں تِرا اور حوالے تیرے حشر میں پیاس بجھانی میری ہوں گنہ گار ، سو […]

اُن کو بھی خوفِ حشر ہے کیونکر لگا ہوا

حامی ہے جن کا شافعِ محشر لگا ہوا طائر وہی خیال کا، پہنچا ہے اُن کے در جس کو ہے اسمِ نور کا شہپر لگا ہوا آتے ہیں ان کے در پہ زمانے کے بادشہ جن کا تری گلی میں ہے بستر لگا ہوا مہکے ہیں ایسے حلقے درودوں کے بے شبہ گویا کہ بام […]

درِ اقدس پہ جا کر ہم یہ مَیلا مَن اُجالیں گے

کہ رو رو کر ، گنہ دھو کر کے آقا کو منا لیں گے غلامِ مصطفیٰ کوئی ہمیں اے کاش یہ کہہ دے ’’کبھی ملنا تمہارے مسئلے کا حل نکالیں گے‘‘ یہی اک سوچ بس اپنی ، تسلّی دل کو دیتی ہے گنہگاروں کو محشر میں وہ دامن میں چھپا لیں گے سرِ نوکِ سِناں […]

’’تمنّا ہے شعور و آگہی کی‘‘

تو چوکھٹ تھام لو بابِ علی کی وہ جا کر مانگ لے غارِ حرا سے جسے بھی جستجُو ہے روشنی کی بڑا رُتبہ بھی مل جائے گا لیکن ضرورت خوب ہوگی عاجزی کی خُدا جس کا بھلا چاہے ہے اُس کو سمجھ دے دیتا ہے دینِ نبی کی سلاموں کا جواب آتا ہے در سے […]

دیتی نہیں ہیں جلوتیں راحت کبھی کبھی

دیتی ہے جو سکون یہ خلوت کبھی کبھی کب تک رہِ وصال میں بیٹھا رہے گا ، ہجر ! ’’ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی‘‘ جائیں گے ہم فقیر بھی بطحا میں ایک دن ملتی ہے اس خیال سے فرحت کبھی کبھی بن کے گدا جو آپ کے در پر ہیں جاگزیں پاتے […]

جود و کرم کریم نے جس پر بھی کر دیا

کاسہ اُسی فقیر کا لمحوں میں بھر دیا ’’میں خالی ہاتھ آیا تھا اِس بارگاہ میں‘‘ صد شکر میرے شاہ نے دامان بھر دیا تشنہ لبی ازل کی مٹا دی حضور نے بس اک نگاہِ ناز نے سیراب کر دیا اُن کے گدا سے مانگنے ، آتے ہیں بادشہ اِتنا اُسے خزینۂ لعل و گہر […]

جب بھی درِ رسول پہ جا کر کھڑا ہوا

جاتے ہی مجھ کو رتبۂ زائر عطا ہوا جس کے لبوں پہ رہتا ہے قندِ درودِ پاک اُس شخص کا ہے شہد میں لہجہ گُھلا ہوا صد شکر ہے کہ میں بھی کھڑا ہوں اُسی جگہ جس جا ہے قدسیان کا تانتا بندھا ہوا ہو کر درِ علی سے جو پہنچا نبی کے در در […]

ہو جو مقبول شاعری میری

بن ہی جائے گی زندگی میری خاکروبی عطا ہو مسجد کی مستقل ہو یہ نوکری میری میں پہنچنے ہی والا تھا طیبہ ’’دفعتاً آنکھ کھل گئی میری‘‘ دید کے نور سے مرے آقا دور کر دیں یہ تیرگی میری ہو عطا آلِ نور کی الفت اُن کی چاہت ہے بس خوشی میری ان کی مدحت […]

نعتِ سرور ہے شاعری میری

یوں ہی گزری ہے زندگی میری تک رہا تھا میں سبز گنبد کو ’’دفعتاً آنکھ کھل گئی میری‘‘ دید ہو جائے سر کی آنکھوں سے بڑھتی جاتی ہے تشنگی میری دل یہ کہتا ہے دیکھ کر طیبہ ختم ہوگی یہ بے کلی میری خود اُنہی کو سنائے گی جا کر چشمِ بے چین کی نمی […]