عظمتِ شاہِ مدینہ کا نہیں جس کو یقیں
پھر وہ قرآں میں شبِ اسریٰ کا قصہ پڑھ لے وارثیؔ دونوں جہانوں میں ملے گی راحت صدقِ دل سے تو سیرتِ آقا پڑھ لے
معلیٰ
پھر وہ قرآں میں شبِ اسریٰ کا قصہ پڑھ لے وارثیؔ دونوں جہانوں میں ملے گی راحت صدقِ دل سے تو سیرتِ آقا پڑھ لے
نہیں ہوں میں سعدی نہ رومی نہ جامی کرے وارثیؔ کیا بیاں شانِ آقا کہاں میں کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
عشقِ حبیبِ پاک میں مخمور ہے جہاں تو ہی نہیں ہے وارثیؔ آقا کا مدح خواں مدحت پہ میرے آقا کی مامور ہے جہاں
کہ اذنِ حاضری عاصی کو بھی عطا ہو جائے شہہِ مدینہ کی جب اک نگاہ ہو جائے غم زمانہ سے تو وارثیؔ رہا ہو جائے
اس کا کب ڈوبتا سفینہ ہے نور برسے گا آسمانوں میں تیری میلاد کا مہینہ ہے
ہوئے نور مبیں سے ہی زمین و آسماں روشن مٹیں تاریکیاں قلب و نظر کی نورِ احمد سے نبی کے نور سے ہے وارثیؔ سارا جہاں روشن
کب نامراد لوٹا یا خالی چلا گیا حاضر درِ حبیب ہوا جب بھی وارثیؔ کر کے سلام چوم کے جالی چلا گیا
پھیلا ہے نور آپ کا سارے جہان میں ہر ذی نفس کو اس لیے قسمت پہ ناز ہے امت وہ بخشوائیں گے محشر میں وارثیؔ ہر امتی کو ان کی شفاعت پہ ناز ہے
عرش والے وہاں پہنچے ہیں سلامی کے لیے اپنی قسمت پہ نہ کیوں ناز کریں وارثیؔ جی اذن ہوجائے عطا جن کو غلامی کے لیے
بخشوانے ہمیں تاجدار آ گئے خوش نصیبی ہے امت کی یہ وارثیؔ لب پہ آقا کے جو بار بار آگئے