شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں

ان کی دہلیز پہ رکھ دی ہیں سوالی آنکھیں بھیک بٹتی ہوئی دیکھی تھی سرِ بزمِ کرم تشنۂ دید تھے کشکول بنالی آنکھیں ایسی آنکھوں کو ملائک نے دیئے ہیں بوسے دیکھ لیتی ہیں جو سرکار کی جالی آنکھیں ایک دیدار کی حسرت میں ابھی روشن ہیں رو رو بے نور نہ ہو جائیں غزالی […]

بہ حکمِ رب کریں گے مدحتِ سرکار جنت میں

سنیں گے بر سرِ منبر شہِ ابرار جنت میں اگر ہو لب کشائی کی اجازت مرحمت ہم کو کریں گے یا رسول اللہ کی تکرار جنت میں عمر بائیں طرف بیٹھے ہوں پہلوئے لطافت میں اگر دائیں طرف بیٹھے ہوں یارِ غار جنت میں وہیں عثمان ذوالنورین بھی تشریف فرما ہوں وہیں جلوہ فگن ہوں […]

اُن کی یاد آئی تو بھر آئے سحابِ مژگاں

کُھل کے برسا ہے مرے قلب پہ آبِ مژگاں ایک دیدار کی اُمید سے نکہت لے کر کِھل سے جاتے ہیں سرِ شام گُلابِ مژگاں کوئے انوار سے اک ناقہ سوار آئیں گے بس اُنہی کے لئے وا رہتا ہے بابِ مژگاں اک تصوّر ہے جسے اور کوئی دیکھ نہ لے اُس پہ رکھتا ہوں […]

بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے

پوچھنا مدینے سے، لوٹتے گداؤں سے ان کے عشق کا امرت، پی لیا تھا گھٹی میں ان کا نام سیکھا تھا، ہم نے اپنی ماؤں سے سرورِ امم مجھ کو، اذنِ لب کشائی دیں حرفِ نعت لایا ہوں، اپنے ساتھ گاؤں سے اے حبیبِ ما اب تو، مرہمِ زیارت دیں مارِ ہجر ڈستا ہے، مجھ […]

دوائے صدمۂ ہجراں ندارم

بجز تو یا نبی پرساں ندارم رگِ جاں مشکبو از اسمِ احمد عبیر و عنبر و ریحاں ندارم یکے فرمودۂ جبریلِ صادق مثالِ سرورِ خوباں ندارم میانِ حشر بہرِ رو رعایت بجز مدحِ نبی ساماں ندارم عطائے شاہِ بطحا روز افزوں اگرچہ وسعتِ داماں ندارم نظر بر حالِ ما اے ماحیٔ غم برائے دردِ دل […]

اسمِ نبی آٹھوں پہر وردِ زباں رکھا گیا

بہرِ کرم سوئے حرم اپنا دھیاں رکھا گیا شہرِ نبی کی رفعتیں کوئی بشر سمجھے گا کیا جس کی زمیں کے زیرِ پا ہر آسماں رکھا گیا کیسا حسیں وہ قرب تھا محبوب سے معراج پر بس درمیاں میں فاصلہ مثلِ کماں رکھا گیا رتبے ہوئے محبوب کو کتنے عطا کس کو پتا کچھ ہو […]

حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا

میرا ہر حرف زمانے کی نظر میں چمکا دے گیا کتنے شرف ایک سیہ پتھر کو ایک بوسہ جو ترے لب سے حجر میں چمکا وجہِ شادابیٔ عالم ہے یہ رنگِ اخضر ہر زمانے میں ہر اک برگِ شجر میں چمکا واسطہ ان کا دیا صلِ علٰی پڑھتے ہوئے میرا ہر حرفِ دعا بابِ اثر […]

مہبطِ انوار ہے ان کا ٹھکانہ نور نور

کاش پھر سے دیکھ لوں وہ آستانہ نور نور اک ہمیں چودہ صدی کے فاصلے سہنے پڑے خوش مقدر تھے ملا جن کو زمانہ نور نور اذنِ مدحت سے بڑی آسودگی بخشی گئی مل گیا رزقِ سخن کا آب و دانہ نور نور میری بھی فردِ عمل میں کچھ تو ہو بہرِ نجات ہو عطا […]

اے خدائے بحر و بر ، بابِ نعت وا کر دے

ہر سخن قبیلے کو ، نعت آشنا کر دے کھول دے مری جانب روشنی کی سب راہیں ٹال دے شبِ ظلمت صبحِ نو عطا کر دے لفظ کو رہائی دے لوحِ نا شگفتہ سے حرفِ ناصیہ سا کو واقفِ ثنا کر دے میری ہر تمنا کو رکھ جوارِ بطحا میں میری ساری سوچوں کو جانبِ […]

سرِ نظارت رخِ مدینہ کہاں سے لاؤں

عجم کی مٹی ہوں طورِ سینا کہاں سے لاؤں حضورِ اکرم سُنیں تو ہولے سے مسکرا دیں میں نعت کہنے کا وہ قرینہ کہاں سے لاؤں مہک تو سکتے ہیں اب بھی دونوں جہان لیکن میں شاہِ ابرار کا پسینہ کہاں سے لاؤں میں دیکھ پاؤُں شہِ مکرم کے نرم تلوے میں وہ مقدر وہ […]