بلند ہاتھ میں کاسہ ہے دستِ خالی کا

حرم کی سمت سفر ہے یہ مجھ سوالی کا

کبھی کبھی میری آنکھوں میں آ کے دیکھتی ہے

یہ اشتیاق عجب ہے لہو کی لالی کا

خیال بس میں نہیں لفظ دسترس میں نہیں

قصیدہ کیسے کہوں پیکرِ مثالی کا

مجال کیا کہ سمندر کو میں سمیٹ سکوں

کہ میرا ظرف ہے ٹوٹی ہوئی پیالی کا

ملالِ بے ہنری کی چھپاؤں آپ سے میں

کہ مجھ کو رنج ہے خود اپنی بے کمالی کا

میں اپنے کرب کو سب سے زیادہ جانتا ہوں

سو ترجمان ہوں اپنی ہی خستہ حالی کا

بتاؤں کیسے برگ و ثمر ک ہوتے ہوئے

میری زمیں پہ موسم ہے خشک سالی کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]