’’ہم خاک اُڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی‘‘
اِس خاک کی اُس خاک میں ہو کاش سمائی جس خاک میں مدفوں شہِ والا ہے ہمارا ’’آباد رضاؔ جس پہ مدینہ ہے ہمارا‘‘
معلیٰ
اِس خاک کی اُس خاک میں ہو کاش سمائی جس خاک میں مدفوں شہِ والا ہے ہمارا ’’آباد رضاؔ جس پہ مدینہ ہے ہمارا‘‘
اور طیبہ میں جا بسا ہوتا رشک وہ جس پہ یہ جہاں کرتا اس بلندی پہ مرتبہ ہوتا
تاب زمیں کب لا سکتی تھی ان کا اگر پڑتا سایہ روئے زمیں پر پاؤں کہاں رکھ سکتے تھے دنیا والے جانتے جب کہ اس جا پڑا تھا آقا کا یکتا سایہ
پُر ضیاء قلب کا نگینہ ہو اور کچھ بھی نہ ہو فداؔ اس میں دل میں یادِ شہِ مدینہ ہو
نہیں گوہروں سے یہ اشکِ مبیں کم ہمیں ناز ہے سلسلے پہ ہمارے الف سے چلے ختمی پر ہوئے ہم
وہ مسجودِ ملائک بے گماں ہیں وہی ہیں وجہِ تخلیقاتِ عالم وہی فخرِ زماں، کون و مکاں ہیں
یہاں عشاق نے ہر دم جبیں اپنی جھکائی ہے یہاں عشقِ حبیب کِبریا تقسیم ہوتا ہے ظفرؔ اُمڈی چلی آتی یہاں ساری خدائی ہے
ہیں محسن آپ انسانوں کے محبوبِ خدا ہیں حبیب کبریاؐ لاریب ہیں پیہم سدا ہیں ظفرؔ ننگے سروں پر آپؐ رحمت کی رِدا ہیں
قسم ہے شافعِ روزِ جزا کی محبت منفرد، ممتاز یکتا محبت مصطفیٰؐ سے ہے خدا کی
فضاؤں میں، مکان و لامکاں میں جبیں میری ہے اُنؐ کے آستاں پہ مری پرواز ہے ہفت آسماں میں