یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا
پلٹ کے میرا مصور کبھی نہیں آیا
معلیٰ
پلٹ کے میرا مصور کبھی نہیں آیا
اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے
فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
تار بھی کیسا انہونا جو ساگر کے اُس پار بندھا ہے
ویسے ممکن تو نہیں پھر بھی میں کر دیکھوں گا
کبھی کاسہ ترا لہجہ ، کبھی بخشش تری باتیں
اس کے انداز مگر ، سب تھے دعاؤں والے
اگر فرطِ عقیدت سے انہیں چومیں ، برا کیا ہے ؟ تری آنکھیں ہمیں صاحب مقاماتِ مقدس ہیں
یہ ترا شہر مری جان کا دشمن نہ بنے
جو اپنے انتقام کو اللہ پہ چھوڑ دے