طیبہ کی مسافت میں ہے اک کیفِ مسلسل
اس راہ میں ہوتا نہیں کم اور زیادہ
معلیٰ
اس راہ میں ہوتا نہیں کم اور زیادہ
بیاں کر مجھ سے اے زاہد اگر جانا تو کیا جانا
آتا ہے نظر چاروں طرف روئے محمد
مدت سے دلفگار ہوں یا احمد الغیاث آنکھوں سے چل کے آؤں اگر حکم دیجیے بیخود ہوں بیقرار ہوں یا احمد الغیاث
وہی اللہ کا بندہ ہے جو بندہ ہے محمد کا
تر دامنی کے ساتھ خدا سے ملا دیا
حق کو منظور اسی شکل میں اظہار ہوا
یہ شب بیمار پر بھاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
میں کہہ سکوں میرے آقا ! ’’غلام حاضر ہے‘‘ نثار کرنے کو کچھ اور تو نہیں رکھتا میں جان دے دوں اگر یہ پسندِ خاطر آئے
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی