سبوئے جاں میں چھلکتا ہے کیمیا کی طرح
کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفیٰ کی طرح
معلیٰ
کوئی شراب نہیں عشقِ مصطفیٰ کی طرح
ہوا زمانہ یہ خیرات بھی وصولے ہوئے عجیب بات کہ اب ہیں عمل سے دور وہی گزر گئیں جنہیں صدیاں یہ دیں قبولے ہوئے الٰہی! اب تو یہ ملت بھی دِیں کی رہ پہ چلے گزر گئے ہیں زمانے یہ راہ بھولے ہوئے
گوشۂ چشم! اور نم ہو جا اے جہانِ خرد! بہم ہو جا نعتِ خیرالانام لکھنی ہے شاخِ دل! آ مرا قلم ہو جا
زباں پہ جاری حبیبِ خدا کی مدحت ہے
یوں روح کی تسکین کا سامان کیا جائے ایمان کا ایقان کا آصف ہے تقاضا سب کچھ شہِ کونین پہ قربان کیا جائے
اوصاف کیا گِنوں میں، ہیں نورِ کبریا بھی آصف میں سوچتا ہوں ہو گا وہ وقت کیسا جب ہوں گے روبرو وہ، اور آئے گی قضا بھی
محمد کے غلاموں کی یہی پہچان ہوتی ہے سکونِ قلب ملتا ہے نبی کا نام لینے سے انہی کے دم سے ہر مشکل مری آسان ہوتی ہے
خزاں ہو پھر بھی شگفتہ سا پھول کھلتا ہے زمینِ قلب پہ نعتوں کے پھول گرتے ہیں نبی کے ذکر سے جب دل کا پیڑ ہلتا ہے
باخدا جوئے شفا ہے موجزن جانب طیبہ چلو اے مفلسو! قلزم جود و سخا ہے موجزن
دل کے قرطاس پر صلاۃ لکھوں شغل دن رات ہو یہی میرا نعت سرکار کائنات لکھوں