ہر اِک چمن ہے خزاں رسیدہ ہر ایک گلزار سوختہ ہے

بس اِک مدینے کا باغ ہے جو بفضلِ رَبِّی ہرا بھرا ہے فراقِ طیبہ میں اب تو شاید جگر مرا خون ہو چلا ہے میں اُن فضاؤں سے دور رہ کر جیوں، کہاں میرا حوصلہ ہے محبتوں کے ہزار دعوے مگر عمل کے نشان دھندلے عمل کی راہیں تمام سونی ہیں،یہ عجب جذبۂ وفا ہے

ماہِ عرب ہے، مہرِ عجم ہے تمہاری ذات !

نازاں ہیں ہم کہ فخر اُمم ہے تمہاری ذات ! راہِ یقیں کے راہنما، شاہِ دوسریٰ سر تا قدم نوال و کرم ہے تمہاری ذات ! خالق کے امرِ کن کی تمہیں اوّلیں کرن مابینِ کُل حدوث و قِدَم ہے تمہاری ذات !

میں فقیر راہ ہوں اب شاہ کر دیجے مجھے

نعت کے مفہوم سے آگاہ کر دیجے مجھے میں تو جوں توں آ گیا ہوں آپ ! کے دربار میں سوز دے کر اب چراغِ راہ کر دیجے مجھے بخش دیجے اب غلامی کی سند یا شاہِ دیں ! ایک ذرّہ ہوں مثالِ ماہ کر دیجے مجھے مدینہ منورہ جاتے ہوئے صبح نو بجے کے […]