اُسوۂ شاہِ دو عالم میں سراپا ڈھل کر
کاش ! کردار سجا کر، میں کروں مدحِ رسول جو امانت مجھے سونپی ہے مرے خالق نے حسن و خوبی سے اُٹھا لوں تو کروں مدحِ رسول
معلیٰ
کاش ! کردار سجا کر، میں کروں مدحِ رسول جو امانت مجھے سونپی ہے مرے خالق نے حسن و خوبی سے اُٹھا لوں تو کروں مدحِ رسول
گلشنِ عشقِ نبی کا عندلیبِ خوش نوا عاشقِ خیر الورا، وہ رہِ نُما ملتا نہیں ’’پیکرِ رُشد و ہدا احمد رضا ملتا نہیں ‘‘
لو مبارک ہو کہ اب شافعِ محشر آئے جن سے ہر سمت سکوں، لوگو! بپا ہوتا ہے ’’چَین ہی چَین ہے اب جام عطا ہوتا ہے‘‘
فوجِ غم چھائی دہائی آپ کی سوئے ماچشمِ عنایت کیجیے ’’سوختہ جانوں پہ رحمت کیجیے‘‘
کہیں دل رہ گیا میرا مدینے میں
محمد مصطفیٰ کی بات کرتے ہیں پریشاں ہو زمانے کی صعوبت سے چلو صلِّی علیٰ کی بات کرتے ہیں معطّر ہیں فضائیں مشک و عنبر سے مدینے کی ہوا کی بات کرتے ہیں ارادہ باندھتے ہیں اُس سفر کا پھر صفا ، مروہ ، حرا کی بات کرتے ہیں تصّور میں ہوئی کن من ، […]
مجھے لگتا ہے یہ مقبول ہونا چاہتی ہیں مدینے کے مناظر کو بیاں کیسے کروں میں مری آنکھیں وہاں کی دھول ہونا چاہتی ہیں نگاہیں اِک تحّیر سے جمی ہیں سنگِ در پر مجھے معلوم ہے مبذول ہونا چاہتی ہیں
میں نے اِک نام لکھا کاغذ پر
باغِ خلدِ بریں معنبر ہے عرقِ پاکِ شہِ مدینے سے ’’جانِ گل زار کے پسینے سے‘‘
ہم کو گھیرا اسی لیے غم نے دور اِس سے تو تاجِ شاہی ہے ’’اپنی مہمان اب تباہی ہے‘‘