’’یکتا ہیں جس طرح وہ ہے اُن کا غم بھی یکتا‘‘
ہے بالیقیں سبب یہ تسکینِ روح و دل کا جس کو مِلا یہ لوگو! قسمت کا وہ دھنی ہے ’’خوش ہوں کہ مجھ کو دولتِ انمول مِل گئی ہے‘‘
معلیٰ
ہے بالیقیں سبب یہ تسکینِ روح و دل کا جس کو مِلا یہ لوگو! قسمت کا وہ دھنی ہے ’’خوش ہوں کہ مجھ کو دولتِ انمول مِل گئی ہے‘‘
’’گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اُس کے گیت پر‘‘ چوم لیں اُس کی زباں کو وجد میں وہ جھوم کر اُن کی عظمت کے ترانے جب سنائے خیر سے ’’باغِ طیبہ میں جب اخترؔ گنگنائے خیر سے‘‘
خدایا! رہ نہ سکیں وہ کبھی بھی خوش آباد اُنھیں تُو جلد مٹا، یا خدا مدینے سے ’’الٰہی نکلے یہ نجدی بَلا مدینے سے‘‘
اُن کی سیرت کا ورق روشن ہے مثلِ ماہ تاب حشر کے دن دیکھ لینا کیسی ہے شانِ جمال ’’درحقیقت مصطفی پیارے ہیں سلطانِ جمال‘‘
’’ستم سے اپنے مٹ جاؤ گے تم خود اے ستم گارو‘‘ فقط ہے چار دن کی چاندنی سُن لو جفا کارو تمہارا نام تک بھی ہو گا نہ کچھ کوئے سرور میں ’’سنو! ہم کہہ رہے ہیں بے خطر دورِ ستم گر میں ‘‘
اس پہ فضلِ خدا بھی کیا برسے دور جو ہو گیا مدینے سے ’’گِر گیا جو نبی کے زینے سے‘‘
’’درِ احمد پہ اب میری جبیں ہے‘‘ مجھے بخشش کا اب اپنے یقیں ہے تصور میں مرے وہ دل نشیں ہے ’’مجھے کچھ فکرِ دو عالم نہیں ہے‘‘
مِلی ہے تُربتِ خاکی میں جا کے مسروٗری وہ اپنا جلوۂ آرا دکھانے آئے ہیں ’’عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں ‘‘
منکر کو بھی دیتے ہیں رحمت سے دُعا آقا ہے کام شہِ دیں کا سب کو ہی عطا کرنا ’’آتا ہی نہیں گویا سرکار کو ’لا‘ کرنا‘‘
ملیں گی نعمتیں ساری، قسیم سے نوریؔ یہی تو رب کے خزانے لُٹانے آئے ہیں ’’یہ فیض و جود کے دریا بہانے آئے ہیں ‘‘