’’دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اُسی سرکار کا‘‘
جس کو جو ملتا ہے وہ تو ہے اُسی دربار کا بے وسیلہِ مصطفیٰ کے مدعا ملتا نہیں ’’خود خدا سے پائے جو اُن کے سِوا ملتا نہیں ‘‘
معلیٰ
جس کو جو ملتا ہے وہ تو ہے اُسی دربار کا بے وسیلہِ مصطفیٰ کے مدعا ملتا نہیں ’’خود خدا سے پائے جو اُن کے سِوا ملتا نہیں ‘‘
ظلمتیں دور کیں نور برسا دیا شرک دنیا سے کیسا مٹا کر چلے ’’سارے عالم میں کیسی ضیا کر چلے‘‘
اونچے اونچوں کو شہِ دین کا منگتا دیکھا سن لو ہر ایک سے لاریب! ہے بالائیِ دوست ’’سارے داراؤں کی دارا ہوئی دارئیِ دوست‘‘
دور اک پل میں ہوئی ظلم و ستم کی صورت جب سے نظروں میں سمائی ہے حرم کی صورت ’’یاد بھی اب تو نہیں رنج و الم کی صورت‘‘
’’خاک ہو جائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضاؔ ‘‘ اُن کی عظمت کے ترانے گائیں گے صبح و مسا جشنِ میلاد النبی یوں ہی مناتے جائیں گے ’’دم میں جب تک دم ہے ذکر اُن کا سناتے جائیں گے‘‘
’’عرش پر دھومیں مچیں وہ مومنِ صالح ملا‘‘ رتبہ دیکھو شاہِ انس و جان کے مدّاح کا چھوڑ کر جب دوستو! وہ معمورۂ ظاہر گیا ’’عرش سے ماتم اُٹھے وہ طیّب و طاہر گیا‘‘
حجِّ مبرور کا اب ہو گیا ارماں پورا جاؤ تسکیں دِہِ دل گنبدِ خضرا دیکھو ’’میری آنکھوں سے میرے پیارے کا روضہ دیکھو‘‘
دور دامن فکر کا از دست ہے کام تیرا عام ہو ہی جائے گا ’’دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا‘‘
مانگنا ہے جو بھی اُن سے مانگ لو فضلِ آقا عام ہو ہی جائے گا ’’کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا‘‘
بادۂ نابِ عشق پینے کو ہے وہ محروٗم جو کہا نہ کرے ’’ میں نہ جاؤں ارے خدا نہ کرے ‘‘