لفظوں میں سکت ہے نہ معانی کا قرینہ
ہُوں وقفِ ثنا پھر بھی ، یہ اوقات بہت ہے کچھ کام نہیں شعر و سخن ، دادِ ہُنر سے مقصودِ ظفر آپ کی بس نعت بہت ہے
معلیٰ
ہُوں وقفِ ثنا پھر بھی ، یہ اوقات بہت ہے کچھ کام نہیں شعر و سخن ، دادِ ہُنر سے مقصودِ ظفر آپ کی بس نعت بہت ہے
شاعری کا ہنر محترم ہو گیا للہ الحمد میرا شعورِ سخن عشق کی بارگاہ میں خم ہو گیا
کرو پیش مل کر انہیں سب سلامی فقط میرے رب کی عطا ہے وگرنہ کہاں میں کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
شمعِ رہِ وفا ہیں محبانِ چار یار دارین میں نصیب ہیں ان کو بھلائیاں خوش بخت خوش ادا ہیں محبانِ چار یار
اعلیٰ ہے کتنی دیکھو سیادت حسینؓ کی زاہدؔ نے جب سے دیکھے ہیں دنیا کے بدلے رنگ ’’محسوس ہو رہی ہے ضرورت حسینؓ کی‘‘
جب نبی رب سے ملنے ہمارے گئے لن ترانی کہا رب نے موسی کو ہے عرش تک آمنہ کے دلارے گئے
اولیاء حق میں روشن ضمیر آپؒ ہیں مشکلوں میں کسی سے نہیں کچھ کہا مجھ کو معلوم تھا دست گیر آپؒ ہیں
اے سرورِ عالم مجھے وہ تیغ عطا ہو دن رات تمنّا ہے یہی ایک کہ زاہدؔ ناموسِ رسالت کے تحفظ کو کھڑا ہو
مدینے جانے کی ہر روز آرزو کرنا سجا کے صورتِ خیر الانام چہرے پر بہت ضروری ہے سیرت کو خوب رو کرنا
تیرے دربارِ رسالت سے شفا مانگتے ہیں کیجیے ایک نظر اپنے گنہگاروں پر دھوپ آلام کی ہے سر پہ ردا مانگتے ہیں