’’روز و شب مرقدِ اقدس کا جو نگراں ہو گا‘‘
وہ جو قسمت سے درِ پاک کا درباں ہو گا ہاں ! وہی سب سے بڑا دہر میں شاداں ہو گا ’’اپنی خوش بختی پہ وہ کتنا نہ نازاں ہو گا‘‘
معلیٰ
وہ جو قسمت سے درِ پاک کا درباں ہو گا ہاں ! وہی سب سے بڑا دہر میں شاداں ہو گا ’’اپنی خوش بختی پہ وہ کتنا نہ نازاں ہو گا‘‘
اے میرے حُسنِ والضحیٰ ماہِ عجم مہرِ عرب ہے دل مرا ظلمت زدا ماہِ عجم مہرِ عرب ’’دے دو مرے دل کو جِلا ماہِ عجم مہرِ عرب‘‘
مالکِ کل کر دیا اللہ نے سرکار کو ہے جلالِ بے نہایت آپ کے دربار کا ’’کام شاخوں سے لیا ہے آپ نے تلوار کا‘‘
ہیں وہی لاریب! جن و انس کے حاذِق طبیب پل میں رنج و غم مٹا، سب شاہ کے بیمار کا ’’جب تصور میں سمایا روئے انور یار کا‘‘
کُن نگاہے لطف و رافت سوے جملہ سُنّیاں حال ابتر ہو رہا ہے آپ کے بیمار کا ’’کوئی بھی پُرساں نہیں ہے مجھ سے بد کردار کا‘‘
الطاف و عنایت کا طالب ہوں شہا کب سے جلووں سے چمک جائے اِس دل کا نہاں خانہ ’’تا حشر رہے ساقی آباد یہ مَے خانہ‘‘
عیاں زمانے پہ آقا تمہاری شوکت ہے جو شاخ لڑنے کو دو، تیغ سر بہ سر ہو جائے ’’جو چاہو تر ہو ابھی خشک، خشک تر ہو جائے ‘‘
حُسنِ والشمس کی کس چیز سے تشبیہ کروں جُز خدا وصف میں انسان پریشاں ہو گا ’’آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیراں ہو گا‘‘
نبی کے عشق و الفت کے ہو تم اک رہِ نما نوریؔ کہ باغِ نعت کے اک بلبلِ شیریں بیاں تم ہو ’’سخن سنج و سخن ور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو‘‘
جوانی کی عبادت ہے یقیناً باعثِ عزّت مخاطب خود سے ہو کر کہتے ہیں سب کو، کہاں تم ہو؟ ’’جو کچھ کرنا ہو اب کر لو ابھی نوریؔ جواں تم ہو‘‘