’’رہے گا یوں ہی اُن کا چرچا رہے گا‘‘
قسم رب کی دشمن سے نہ رُک سکے گا مٹیں گے سبھی کینہ پھیلا نے والے ’’پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے‘‘
معلیٰ
قسم رب کی دشمن سے نہ رُک سکے گا مٹیں گے سبھی کینہ پھیلا نے والے ’’پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے‘‘
لہلہا اُٹّھے ہیں جن سے سنیت کے گلستاں وجد میں مصروٗف ہر سوٗ لالہ و گل زار ہے ’’ کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے ‘‘
وجد میں ہیں گل و لالہ و چمن زار و بہار مدح گوئے شہِ والا ترا کہنا کیا ہے ’’بلبلِ باغِ مدینہ ترا کہنا کیا ہے‘‘
رنج و غم، آلامِ دوراں کی تمازت سے نہ ڈر بن کے رحمت سر پہ ہوں گی سایہ گُسترایڑیاں ’’شاد ہو ہیں کشتیِ اُمّت کو لنگر ایڑیاں ‘‘
ہے یہ میری زیست کا مدعا، کہ ہو لب پہ نغمۂ مصطفا جو ہر اک کی کرتا پھرے ثنا، مرے منہ میں ایسی زباں نہیں ’’میں گدا ہوں اپنے کریم کا، مرا دین پارۂ ناں نہیں ‘‘
کون ہے جس نے نہ پایا کبھی، صدقا تیرا سارے داتاؤں میں ہے طَور نرالا تیرا ’’نہیں‘‘ سُنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا‘‘
سارے ولیوں میں ہوا مرتبہ ہاں ! جس کا رفیع پرتوِ پاک ترا، عاشق و شیدا تیرا ’’جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا‘‘
’’میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں ‘‘ بجز تیرے صدقہ کہاں سے میں پاؤں ترا نام آقا پکارا کروں میں ’’ ترے در سے اپنا گذارا کروں میں ‘‘
اُن کی ہر بات ہدایت سے جُڑی ہوتی ہے جیسے آیت کسی آیت سے جُڑی ہوتی ہے
کام دیتی ہے یہاں پر نہ فراست، نہ علوم