قسمت نے کسی دن جو پہنچایا مدینے میں
ہر نعت سناؤں گا سرکار کو رو رو کر دکھلائیں گے جلووں کو وہ اپنے فداؔ ہر دم آنکھوں میں سمیٹوں گا انوار کو رو رو کر
معلیٰ
ہر نعت سناؤں گا سرکار کو رو رو کر دکھلائیں گے جلووں کو وہ اپنے فداؔ ہر دم آنکھوں میں سمیٹوں گا انوار کو رو رو کر
تڑپنے لگا صدق جذبوں سے سینہ فداؔ پہ نوازش جو سرکار کر دیں کنارے پہ ہو زندگی کا سفینہ
عرفاں کی مے کا طاری کیف و خمار کر دو اپنے غلامِ در میں مجھ کو شمار کر کے دریائے گمرہی سے سرکار پار کر دو آنے کو ہے قیامت عصیاں سے کر لو توبہ جو بے خبر ہیں ان کو اب ہوشیار کر دو
جس قلم کی روشنائی میں ہو شامل احتیاط
معجزے خاک پر رقم اُس کے لہر بکھری ہے یم بہ یم اس کی تارے اُترے ہیں خم بہ خم اُس کے
نبی کا حق کیا ادا ہو اس سے ہم اپنی جنت سجا رہے ہیں نبی کی آمد کا ہے تقاضہ نبی کی سنت کا بول بالا نبی کے عاشق ، نبی کی سنت ، حیات اپنی بنا رہے ہیں
شعور ہست میں ڈھل کر،شعار آگہی بن کر خدا کا نور اُترا ہے زمیں پر روشنی بن کر
کالعدم ٹھہرا میرے جرم و سزا کا سلسلہ ذہن ہے کاسہ بکف ان کے خیالوں کے لیے ہاتھ باندھے ہے کھڑا فکرِ رسا کا سلسلہ
مدینے جا کے بصد احترام، اے زائر تڑپ رہا ہے کوئی صبح و شام، کہہ دینا نہیں نہیں، میں نہیں اُن سے ذکر کے قابل سو میرا نام چھپا کر سلام کہہ دینا
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر