پُر خار زندگی کو پھر پُر بہار کر دو

عرفاں کی مے کا طاری کیف و خمار کر دو اپنے غلامِ در میں مجھ کو شمار کر کے دریائے گمرہی سے سرکار پار کر دو آنے کو ہے قیامت عصیاں سے کر لو توبہ جو بے خبر ہیں ان کو اب ہوشیار کر دو

نبی کے در پر کھڑے ہوئے ہیں درود پڑھتے ہی جا رہے ہیں

نبی کا حق کیا ادا ہو اس سے ہم اپنی جنت سجا رہے ہیں نبی کی آمد کا ہے تقاضہ نبی کی سنت کا بول بالا نبی کے عاشق ، نبی کی سنت ، حیات اپنی بنا رہے ہیں