مری سرکار کا یہ آستاں ہے
زمیں کا حُسن ہے، جنت نشاں ہے یہی مرکز نگاہِ انس و جاں ہے یہی آما جگاہِ عاشقاں ہے
معلیٰ
زمیں کا حُسن ہے، جنت نشاں ہے یہی مرکز نگاہِ انس و جاں ہے یہی آما جگاہِ عاشقاں ہے
مری آواز محبوبِ خُدا کے آستاں تک ہے مری فریاد سُنتے اور دِلاسہ مجھ کو دیتے ہیں نیاز و راز محبوبِ خُدا کے آستاں تک ہے
مرے اللہ مجھے نورِ بصر دے مری نعتوں میں یا رب وہ اثر دے جو ہر اک سنگدل کو موم کر دے
وہی تو رہبر دُنیا و دیں ہیں وہی تو رحمۃ اللعالمیں ہیں ظفرؔ وہ ربِّ اکبر کے قریں ہیں
گِرا سرکار کے قدموں میں آ کر مٹائی بھوک آقا نے بجھائی پیاس میری محبت کی عطا اپنی، بنا ڈالا تونگر
میں لکھوں اللہ جل شانہٗ، صل علیٰ لکھوں حبیبِ کبریا اُن کو میں محبوبِ خدا لکھوں ظفرؔ خود کو درِ سرکار کا ادنیٰ گدا لکھوں
نہ اپنوں سے ہے، نہ اغیار سے ہے شہنشاہ نہ کسی سردار سے ہے محبت بس مجھے سرکار سے ہے
نہیں اُن سا کوئی کون و مکاں میں وہ محبوبِ خُدا و اِنس و جاں ہیں نہیں اُن سا ظفرؔ سارے جہاں میں
فضاؤں میں زمین و آسماں میں خدائی کے بھی محبوبِ خدا بھی قدم اُن کا قلوبِ عاشقاں میں
وہی تو قبلہ گاہِ عارفیں ہیں وہی مشکل کشائے متقیں ہیں ظفرؔ وہ رہنمائے سالکیں ہیں