حبیبِ کبریا سایہ کُناں ہو
تو مجھ سا بے زباں معجز بیاں ہو میں لکھوں نعت محبوبِ خدا کی تو دُوری میں حضوری کا سماں ہو
معلیٰ
تو مجھ سا بے زباں معجز بیاں ہو میں لکھوں نعت محبوبِ خدا کی تو دُوری میں حضوری کا سماں ہو
مجھے ساری خُدائی مل گئی ہے جو پہنچے آپ تک اُن کو یقیناً خدا تک رہنمائی مل گئی ہے
عشق اُن کا ہے اُن کی چاہت ہے میں ظفرؔ اُن کے در کا درباں ہوں مری کتنی کمال قسمت ہے
زندگی میں نکھار آپ سے ہے مرے دل کے مہکتے گلشن میں رنگ و بُو، برگ و بار آپ سے ہے
ہم مُسلسل مدام کرتے ہیں اپنے عشاق کو حضور اکثر خواب میں ہم کلام کرتے ہیں
آپ کے ہم گدا حبیبِ خدا آپ آئیں نظر ظفرؔ ہر سُو مجھ کو جلوہ نما، حبیبِ خدا
دامانِ کرم میں مجھے مستور کیا ہے سرکار نے بُلوایا ہے صدیق ظفرؔ کو
دل کے ارمان سب نکلتے ہیں سر درِ مصطفیٰ پہ رکھ کے ظفرؔ ہم رگِ جاں میں نُور بھرتے ہیں
دل فرطِ مسرت سے مرا غارِ حرا ہو ہر لمحہ میں ہر سمت جھلک آپ کی دیکھوں ہو مجھ پہ کرم آپ کا مجھ پر یہ عطا ہو
آپ کی شان سب سے اعلیٰ ہے آپ ممتاز منفرد یکتا میں نے تاریخ کو کھنگالا ہے