تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں

یہ جان اگر جائے سرکار کے قدموں میں اک بار رکھوں اُن کے قدموں میں یہ سر اپنا پھر عمر گذر جائے سرکار کے قدموں میں یہ کیفؔ کی حسرت ہے ڈھل جائے وہ خوشبو میں اور جا کے بکھر جائے سرکار کے قدموں میں

کرم ہو یارب لحد میں اتنا، سوال ہو سامنے جو ان کے

نظر بھی پہچان کے یہ ان کو، جو رہنما ہیں دلوں میں بس کے گئے ہیں آگے وہاں سے بڑھ کر، حجابِ عرش بریں میں ہو کر جہاں پر سدرہ نشیں کی جرأت پروں کو بھی باندھتی ہے کس کے