وہ مری نعت کا محتاج نہیں ، جنّت سے
جس کی اولاد کی پوشاک سلی آئی ہو رحمتِ عالی ! فزوں تر سخن آرائی ہو نعت کہتا ہوں ، مری حوصلہ افزائی ہو
معلیٰ
جس کی اولاد کی پوشاک سلی آئی ہو رحمتِ عالی ! فزوں تر سخن آرائی ہو نعت کہتا ہوں ، مری حوصلہ افزائی ہو
انساں کا ہے مقام کہاں تک بتا گئے قیصرؔ اب اس سے بڑھ کے ہو کیا درسِ زندگی جینا سکھا گئے ، ہمیں مرنا سکھا گئے
ہجرت والے برکت والے کونپل کونپل، شبنم شبنم لمحے بھیج زیارت والے
ان پر نثار جان ودل ان پر درود اور سلام ان کے نظر کے فیض سے خار بھی پھول ہوگئے ان کے قدم سے مل گیا خاک کو عرش کا مقام
یہ جان اگر جائے سرکار کے قدموں میں اک بار رکھوں اُن کے قدموں میں یہ سر اپنا پھر عمر گذر جائے سرکار کے قدموں میں یہ کیفؔ کی حسرت ہے ڈھل جائے وہ خوشبو میں اور جا کے بکھر جائے سرکار کے قدموں میں
کون سمجھے گا بہتّر کی شہادت کیا ہے دل کی دھڑکن سے مدینے کی مہک آتی ہے طیبہِ جان میں صر صر کی طراوت کیا ہے ؟
فرد عصیاں میری مسترد ہو گئی مجھ سا عاصی بھی آغوش رحمت میں ہے یہ تو بندہ نوازی کی حد ہو گئی
وہ اک یتیم، بے کس و تنہا کہیں جسے چمکا ہے اس طرح کہ ستارہ کہیں جسے اک پیکرِ جمال کہ جس کا بدل نہیں اک صورتِ جمال کہ یکتا کہیں جسے
نظر بھی پہچان کے یہ ان کو، جو رہنما ہیں دلوں میں بس کے گئے ہیں آگے وہاں سے بڑھ کر، حجابِ عرش بریں میں ہو کر جہاں پر سدرہ نشیں کی جرأت پروں کو بھی باندھتی ہے کس کے
روتی رہے گی آنکھ تھرکتے رہیں گے لب جاری رہے گا چشمہ درود و سلام کا