اِدبار کی رُتیں تو ٹھہر ہی گئیں حضور !
اُمت کی سمت ایک نظر التفات کی تا، ہو سکے خزاں کا یہ موسِم شجر سے دور
معلیٰ
اُمت کی سمت ایک نظر التفات کی تا، ہو سکے خزاں کا یہ موسِم شجر سے دور
سعدیؒ کے صدقے آقا ! میرے شعروں کی خوشبو بھی مہکے
جو پیار لگاتے ہیں ڈوب نہیں سکتے وہ پار لگاتے ہیں
آثار بتاتے ہیں دل مرا کہتا ہے سرکار بُلاتے ہیں
نعتوں کا اُجالا ہے عشقِ محمد تو بخشش کا حوالہ ہے
یورشِ کرب و ابتلا حیران دل کو کر گئی شاہِ مدینہ لیں خبر اب مجھ پہ وقت سخت ہے ’’تاب نہ مجھ میں اب رہی دل میرا لخت لخت ہے‘‘
اِسی میں تو عاشق کو حاصل مزا ہے فنا اِس میں جو ہو اُسے ہی بقا ہے ’’ترا دردِ اُلفت ہی دل کی دوا ہے‘‘
اور کہاں پر اُگتے ہیں سورج سینے میں
اُن کی یاد کے دیپ جلا اُن کی باتیں کر
سیرت کے انوار سورج بن کر اُبھرے ہیں ان کے پیروکار