فرّخ تھا لمحہ، صبحِ سعادت کا وقت تھا
ایمان کی گھڑی تھی عبادت کا وقت تھا ساعت تھی آگہی کی بصیرت کا وقت تھا ربِّ صَمَدْ کی خاص عنایت کا وقت تھا جب کی دُعا خدا سے، خدا کے خلیلؑ نے دم بھر کو سانس روک لیا جبرائیلؑ نے
معلیٰ
ایمان کی گھڑی تھی عبادت کا وقت تھا ساعت تھی آگہی کی بصیرت کا وقت تھا ربِّ صَمَدْ کی خاص عنایت کا وقت تھا جب کی دُعا خدا سے، خدا کے خلیلؑ نے دم بھر کو سانس روک لیا جبرائیلؑ نے
آدم کے دِل کو نسخۂ احمد عطا ہوا دنیا کے پہلے شخص کو ابجد عطا ہوا سازِ ازل کو نغمۂ سرمد عطا ہوا پرکارِ جاں کو نقطۂ محور دیا گیا آئینۂ خیال کو جوہر دیا گیا
اے خالقِ مکین و مکاں ربِّ ذوالجلال ہے نام جس کا عرش پہ موضوعِ ہر مقال تنزیل مجھ پہ بھی ہو وہی اسمِ ذِی جمال یہ نام شاخِ ذہن پہ مانندِ گُل، رہے آدم شریکِ امّتِ ختم الرُّسل رہے
مانا نہ قدسیوں کے امامِ رذیل نے سَرکش بنا دیا اُسے ذہنِ علیل نے مغرور کر دیا اُسے علمِ دلیل نے تب ہر نگاہ میں اُسے بَد کر دیا گیا شامِ ابد تلک اُسے رَد کر دیا گیا
مدحتِ خاتم الانبیا کیجیے ذکر قرآن میں جا بجا آپ کا ہر گھڑی کیجیے ہر جگہ کیجیے
در حبیب پہ سر کو جھکا لیا میں نے ملا ہے فیض زمانے کو جن کی نسبت سے انہیں ہی وارثیؔ دل میں بٹھا لیا میں نے
کرنے اظہار چلے دل کے وہ ارمانوں کا رحمتیں بٹتی ہیں بن مانگے ہی ان کے در پر مان رکھ لیتے ہیں سرکار ثنا خوانوں کا
جھک جائے جبیں سامنے جب آپ کا در ہو اس طرح سنواروں میں وہاں جا کے مقدر اشکوں کی روانی ہو لگا جالی سے سر ہو
حشر میں آپ کہیں گے کہ یہ سب میرے ہیں مالکِ ارض و سما کا ہے یہ فرمانِ صریح ’’کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘
پوچھو بلالِؓ پاک سے حرمت رسول کی کنبہ مٹا حسینؓ کا نانا کے دین پر لیکن یزیدیوں کی نہ طاعت قبول کی