محبوب کبریا ہیں شہِ دوسریٰ ہیں آپ
ہیں چین میرے دل کا تو آنکھوں کا نور ہیں ملتا ہے بے طلب ہی درِ مصطفیٰ سے فیض باتیں دلوں کی جانتے میرے حضور ہیں
معلیٰ
ہیں چین میرے دل کا تو آنکھوں کا نور ہیں ملتا ہے بے طلب ہی درِ مصطفیٰ سے فیض باتیں دلوں کی جانتے میرے حضور ہیں
زندگی کس قدر حسیں ہوتی بھول جاتا غمِ زمانہ کو واں ہی مرقد کی گر زمیں ہوتی
حسنِ سرکار پہ کچھ بات کرو لب پہ جاری رہیں نغماتِ درود چشم نم کر کے مناجات کرو
کام بنتے ہیں سارے توبہ سے دو وسیلہ نبیِ رحمت کا درد بٹتے ہیں سارے توبہ سے
تبھی تو نامِ محمد زباں پہ جاری ہے کسے ہے وارثیؔ فرصت غمِ زمانہ کی ابھی تو نامِ محمد زباں پہ جاری ہے
قربِ نبی کی یادوں کو دل میں بسا کے لا تڑپت دلِ حزیں ہے ملے اذنِ حاضری ’’نسیم تھوڑی سی خوش بو چرا کے لا‘‘
پھر آج حرمتِ آقا پہ گفتگو کی جائے جو چاہو وارثیؔ قسمت تری بدل جائے درِ حبیب پہ جا کر یہ آرزو کی جائے
رتبہ یہ ملا کس کو ہے روئے زمیں پر تھی فکر وہاں پر بھی تو امت مری امت احسان ہے آقا کا یہ مجھ جیسے حزیں پر
کوئی مثل مصطفیٰ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا ہے یقین وارثیؔ کو نہیں شک کوئی ذرا سا کہ حسینؓ سا نواسہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا
غوثِ اعظم ہیں شاہِ جیلاں ہیں در پہ آجائے گر سوالی تو اس کا بھر دیتے آپ داماں ہیں ہیں قدم بوس سب ولی ان کے سارے ولیوں کے آپ سلطاں ہیں جو غلامیِ شیخ کرتے ہیں وہ بھٹک جائیں کم ہی امکاں ہیں در پہ غوث الوریٰ وہ جاتے ہیں جن کی قسمت میں […]