جس کی نظروں میں زرِ پائے پیمبر چمکے
سامنے اُس کے نہ گنجینۂ گوہر چمکے بخت ذرّے کے جو یاور ہوں ، عرب تک پہنچے خاکِ طیبہ سے لگے، مہر سے بڑھ کر چمکے رُوبُرو گنبدِ خَضرا کے پہنچ جاؤں اگر مجھ زیاں کار کا بھی نقشِ مقدّر چمکے ذہن میں دشتِ مدینہ کا تصوّر آیا پُھول اُلفت کے مِری شاخِ نظر پر […]