وہیں پر برق گرتی ہے جہاں اپنا نشیمن ہو
کہاں تک اب بھلا ہم روز شاخِ آشیاں بدلیں عجب کیا ہے کہ اب کچھ ہم قفس صیاد بن جائیں قفس والوں سے یہ کہہ دو کہ اندازِ فغاں بدلیں
معلیٰ
کہاں تک اب بھلا ہم روز شاخِ آشیاں بدلیں عجب کیا ہے کہ اب کچھ ہم قفس صیاد بن جائیں قفس والوں سے یہ کہہ دو کہ اندازِ فغاں بدلیں
خود پر چلا نہیں رہا تلوار خود سے میں پیدا ہوا ہوں جب سے مری خود سے جنگ ہے ڈرتا ہوں مان لوں نہ کہیں ہار خود سے میں
بہت سا کام لیتا ہے ، کمائی کچھ نہیں دیتا ترا چہرہ ہی اب تو بن گیا ہے میری بینائی نہ جب تک سامنے تو ہو ، دکھائی کچھ نہیں دیتا
تیرے لبوں کو کبھی پنکھڑی کو دیکھتے ہیں اگرچہ بزم میں بیٹھے ہیں خوش جمال کئی سب اہلِ بزم مگر اک اُسی کو دیکھتے ہیں
شاعر ہوں مجھ کو شعر و سخن میں کمال دے اس کے سوا نہیں ہے طلب کچھ سکون کی اک آگہی جو قلب و نظر کو اجال دے
اے چرخ کینہ پرور تو کیوں ستا رہا ہے؟ کوچے میں دشمنوں کے ہم اور سجدہ کرتے نقشِ قدم کسی کا سر کو جُھکا رہا ہے
کوئی دامن نہ پکڑ لے سرِ محشر دیکھو اُن کو دشمن سے جو اُلفت ہے پروا نہ کرو اے رساؔ تم بھی کسی اور پہ مر کر دیکھو
اگر مرضی تری اے کاتب تقدیر ایسی ہے بوقتِ ذبح قاتل کا بڑھایا دل یہ کہہ کر کہ تُو قاتل ہے ایسا اور تری شمشیر ایسی ہے
سیکھو ابھی طریقے کُچھ روز دلبری کے آئے اگر قیامت تو دھجّیاں اُڑا دیں پھرتے ہیں جستجو میں فتنے تری گلی کے
خواب دیکھو تو زمانے سے الگ ہو جاؤ نیند میں حضرت یوسف کو اگر دیکھا ہے عین ممکن ہے گھرانے سے الگ ہو جاؤ