میں کیا کہوں کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں
گزر رہا ہوں ابھی رہگزر بناتے ہوئے
معلیٰ
گزر رہا ہوں ابھی رہگزر بناتے ہوئے
ایک ہی صورت جھانک رہی ہے صدیوں کی ویرانی سے
میرے دلِ خراب سے اُس کی نگاہ تک
میں کب تلک یوں پڑا رہوں گا تری زمین پر
مری گرفت میں آ کر نکل گئی دنیا
اور اب دیکھوں تو رستہ بھی نگاہوں میں نہیں
روز سیلاب بہا کر لے جائے
لرزاں ہے دستِ بادِ فنا میرے سامنے
وہ تیرگی ہے کہ یہ روشنی بھی غنیمت ہے
ہزار رستے گماں کے بھی ہیں ، یقیں سے پہلے