غمناکم و از کوئے تو با غم نروم

جز شاد و اُمیدوار و خرم نروم از درگہِ ہمچو تو کریمے ہرگز نومید کسے نرفت و من ہم نروم میں غمناک ہوں لیکن تیرے کوچے سے غموں کو ساتھ لے کر نہیں جاؤنگا بلکہ امید لیے، شاد اور خوش خوش جاؤںگا تیرے جیسے کریم کے در سے (آج تک) کوئی بھی ہرگز ہرگز ناامید […]

مراست خانہ بیابان و دل ز خوں دریا

تو عشق بیں کہ مرا میرِ بحر و بر دارد بیابان میرا گھر ہے اور اور دل خون ہو کر دریا بنا ہوا ہے تُو عشق (کی کرشمہ سازی و نیرنگی) دیکھ کہ اُس نے مجھے بحر و بر (تری اور خشکی، دریا اور بیابان) کا امیر بنا رکھا ہے

چراغِ عیشِ من از تُند بادِ ہجرِ تو مُرد

بیا بیا کہ ز شمعِ رُخَت برافروزم میری راحت و خوشی و سرور نشاط کا چراغ تیرے ہجر کی تند و تیز ہوا سے بجھ گیا، آجا آجا کہ میں تیرے چہرے کی شمع سے اِس چراغ کو (پھر سے) روشن کر لوں

چوں وا نمی کنی گرہے، خود گرہ مشو

ابرو کشادہ باش چو دستت کشادہ نیست اگر تُو کوئی گرہ کھول نہیں سکتا (کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتا) تو خود ہی گرہ (مسئلہ) مت بن جا، اگر تیرا ہاتھ کشادہ نہیں ہے تو کم از کم کشادہ ابرو (خندہ پیشانی) والا ہی بن جا

کسے کز وادیِ عقل و جنوں بیروں کشد خود را

نہ در معمورہ می خندد، نہ در ویرانہ می گرید وہ کہ جو عقل اور جنون کی وادی (تضادات کی دنیا) سے اپنے آپ کو باہر کھینچ لاتا ہے وہ پھر نہ آبادیوں میں ہنستا ہے اور نہ ہی ویرانوں میں روتا ہے، اس کے لیے سب کچھ ایک برابر ہو جاتا ہے